• صارفین کی تعداد :
  • 3315
  • 7/30/2012
  • تاريخ :

ماں باپ کے ساتھ اچھے رفتار سے پيش آئے

احترام والدین

دوسري آيت :

( وَاعْبُدُوا اï·²َ وَلاَتُشْرِکُوا بِہِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا)

اور خدا ہي کي عبادت کر ے اور کسي کو اس کا شريک نہ ٹھر اۆاور ماں باپ کے سا تھ اچھا سلوک کرو-

تفسيرآيت :

خداوند کريم اس آيت شريفہ ميں تين نکات کي طرف اشارہ فرماتا ہے:

1- اللہ کي عبادت کريں-

2- اس کے ساتھ کسي کوشريک نہ ٹھرائيں -

3- ماں باپ کے ساتھ اچھے رفتار سے پيش آئے -

تفسير عياشي ميں ''وبالوالدين احسانا'' کے ذيل ميں سلام جعفي نے امام محمد باقر عليہ السلام سے اور آبان بن تغلب نے امام جعفرصادق عليہ السلام سے يوں نقل کيا ہے :

''نزلتْ في رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ عليہ وآلہ وسلم وفي علي عليہ السلام'' يعني يہ آيت ( وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا )

حضرت پيغمبر اکرم (ص) اور حضرت علي عليہ اسلام کے بارے ميں نازل ہوئي ہے يعني کہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پيش آئيں -نيز ابن جلبہ سے منقول روايت اس کي تائيد کرتي ہے کہ حضور (ص) نے فرمايا:

'' اناوعلي ابوا ہذہ الامۃ''

يعني ميں اور علي عليہ السلام اس امت کے باپ ہيں پس ان دو رواتيوں کي روشني ميں معلوم ہوتا ہے کہ وبالوالدين احسانا سے حضرت پيغمبر اور حضرت علي مراد ہے لہٰذا سوال يہ ہے کہ کيوں پيغمبر اکرم (ص) اور حضرت علي کے بارے ميں وبالوالدين کا جملہ استعمال ہوا جب کہ عربي زبان ميں والدين سے مراد ماں باپ ہيں -

جواب يہ ہے جيسا کہ والدين اپنے بچوں کي تربيت اور ترقي وتکامل کے لئے ہر قسم کي زحمتيں اور مشکلات برداشت کرتے ہيں، حضرت پيغمبر (ص)اور حضرت علي عليہ السلام پوري زندگي امت اسلامي کي تربيت اور روحي وفکري نشوو نما کي خاطر ہر قسم کي سختيوں اور رکا وٹوں کو تحمل کرتے رہے-

لہٰذا قرآن کي نظر ميں جہاں والدين سے حسن سلوک ہر مسلمان کا بنيادي فريضہ ہے اسي طرح اولياء خدا کي اطاعت وفرما نبرداري بھي ايمان کا لازمي حصہ ہے، اس لئے وبالوالدين احساناً حضرت رسول اکرم (ص) اور حضرت علي عليہ السلام کي شان ميں نازل ہونا ہماري بات کے ساتھ نہيں ٹکرارہا ہے-


متعلقہ تحريريں:

بچوں کي مشکلات کو کيسے کم کريں ؟ (حصّہ دوّم )