• صارفین کی تعداد :
  • 2735
  • 3/10/2010
  • تاريخ :

سرزمین موعود

صیہونیزم کا نشان

سرزمین موعود یا ارض موعود سے صیہونیستوں کی مراد فلسطین ہے۔ یہ سرزمین صیہونیستوں کی طرف سے یہودی حکومت کے قیام کی اصلی جگہ کے طور پر پیش کی گئی۔ یاد رہے کہ شروع میں صیہونیستوں کے درمیان یہودی حکومت کی تشکیل کی جگہ کے بارے میں اختلافات پائے جاتے تھے۔ برطانیہ نے بھی یہودیوں کے حامی کے طور پر ان کو اس بارے میں مختلف مشورے دیئے تھے۔ 1902 میں برطانیہ نے ہرٹسل کی سربراہی میں ایک یہودی وفد کو صحرای سینا میں یہودی وطن قائم کرنے کی اجازت دے دی۔

یہودی انجینئرز نے وہاں جاکر کچھ مطالعات انجام دیئے اور پھر یہ کہ کر اس پیشکش کو رد کر دیا کہ وہاں کی سرزمین ایک ریگ زار اور صحرا ہے جو ان کیلئے مناسب نہیں ہے۔

اس کے بعد برطانیہ نے انہیں یوگنڈا اور چاڈ کے علاقے کی پیشکش کی لیکن یہودیوں نے اس کو بھی قبول نہیں کیا۔ یہودیوں نے اپنی کانگرس میں صرف فلسطین کو سرزمین موعود کے طور پر پیش کیا۔ برطانیہ جو خلافت عثمانی کو توڑنے کا ارادہ سر زمیں لئے ہوئے تھا نے یہ مطالبہ قبول کر لیا اور روس اور فرانس سے بھی اس بارے میں مذاکرات کئے۔ یہ معاہدہ جو 1916 کے اوائل میں برطانوی نمائندے مارک سایکس اور فرانسوی نمائندے جرج پیکو کے درمیان طے پایا "سایکس پیکو" معاہدے کے نام سے معروف ہے۔ اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ فلسطین کی دو اہم بندرگاہیں عکا اور حیفا برطانیہ کو دے دی جائیں۔ اس خفیہ معاہدے کے بعد برطانیہ نے ایک بیانیہ صادر کیا جس میں یہودیوں کے وطن کا ذکر کیا گیا۔ یہودی اور صیہونیست اس بیانیہ سے بہت خوش ہوئے۔ اس طرح صیہونیزم کے سیاسی اقدامات اور برطانیہ کی حمایت دنیا کے مختلف حصوں سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا باعث بنی۔

بشکریہ اسلام ٹائمز


متعلقہ تحریریں :

یوم القدس اور عالم اسلام

ریاست اسرائیل کی حقیقت

بنی اسرائیل اور اسرائیل کی تاریخ