• صارفین کی تعداد :
  • 6420
  • 10/11/2008
  • تاريخ :

سورۃ یوسف کی تفسیر

قرآن الکریم

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

مرسل اعظم حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم اور ان کے اہلبیت علیہم السلام پر درود و سلام کے ساتھ آسان و عام فہم تفسیر کے سلسلہ وار پروگرام " پیام قرآن " میں آج ہم اپنی گفتگو مکہ میں نازل شدہ سورۂ یوسف کی تفسیر سے آغاز کر رہے ہیں جس میں بیان شدہ داستان کو قرآن نے " احسن القصص " سے تعبیر کیا ہے۔ صاحب " المیزان "  کے مطابق اس سورہ کی اصل غرض اس ولایت کا بیان ہے جو خداوند عالم اپنے بندوں پر رکھتا ہے البتہ خدا کا وہ بندہ جس کا ایمان خالص اوراپنے معبود کی محبت سے معمور ہو خدا کے سوا کسی بھی دوسرے کی بندگي اس کے تصور سے بھی بعید ہو ،ایسے بندہ کے تمام امور خدا اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے بہترین انداز میں تربیت کرتا ہے اور اپنے تقرب کی راہ ہموار کردیتا ہے۔

 

دل خدا کی محبت سے اس طرح سرشار اور بندگی اس قدر خالص ہو جاتی ہے کہ زندگی الہی زندگي بن جاتی ہے اگرچہ ظاہری اسباب اس کی ہلاکت کے حالات فراہم کریں اوردنیا کے حوادث اس کو ذلیل و خوار کردینا چاہیں خدا اپنے بندہ کو عزت و وقار عطا کردیتا ہے ۔ قرآن کریم کے کسی بھی سورہ میں کوئی بھی داستان ، حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کی مانند اول سے آخرتک تفصیل کے ساتھ بیان نہیں ہوئي ہے اور یہی وہ اکیلا سورہ ہے جس میں جناب یوسف (ع) کے واقعات کے علاوہ کسی دوسرے نبی کے واقعات بیان نہیں ہوئے ہیں ۔ جی ہاں ! جناب یوسف (ع) خدا کے ایک مخلص بندے تھے اور خدا نے ہی یہ اخلاص ان کے وجود میں پیدا کردیا تھا کیونکہ اپنے اور بیگانے تمام افراد اور وسائل و اسباب ان کے خلاف تھے اور انہیں ذلیل و رسوا کردینے پر کمر بستہ تھے لیکن عشق و اخلاص پروردگار سبب بنا کہ خدا نے ان ہی چیزوں کے ذریعہ جو انہیں ہلاکت میں گھسیٹ لے جانا چاہتی تھیں انہیں زندگي اور بندگي کے کمالات سے سرافراز کر دیا ۔ ان کے اپنے بھائیوں نے ان سے حسد کیا اور ایک دور افتادہ کنویں میں ڈھکیل آئے اللہ نے انہیں نجات دی ، معمولی قیمت پر بیچے گئے اور خریداروں نے مصر تک پہنچایا جہاں انہیں سلطنت و عزت حاصل ہوئي ،محل کی ملکہ نے اپنی ہوس کا شکار بنانا چاہا اور بندۂ مخلص کو الزام لگا کر بدنام کرنا چاہا مگر خود ہی شریف زادیوں کے درمیان بیٹھ کر ان کی امانت و پاکیزگي کا اقرار کیا دوبارہ الزام تراشی کے ذریعہ قید خانے تک پہنچایا اور یہی چیز سلطان مصر کے قریب ہونے کا باعث بن گئی ۔

قرآن مجید

 دوسری طرف بیٹے کا وہی خون آلود پیراہن جو باپ کی بصارت جانے کا باعث بنا تھا آخر میں باپ کی بینائی واپس آنے کا بھی باعث بنا گویا حوادث کی تلخیاں ہی حضرت یوسف (ع)  کی زندگي میں ترقی و کمال کی حلاوت گھولنے کا باعث بنتی چلی گئیں ۔ جتنی چیزیں بھی تقرب کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی گئیں خدا کے لطف سے حضرت یوسف (ع) نے ان ہی چیزوں کو کمال و ارتقا کا زینہ بنایا اور وہ اپنے پیغمبرانہ ہدف و مقصد سے اور زیادہ قریب ہوتے چلے گئے اور الہی ملک و حکمت کے مالک بن گئے اور الہی قوتوں اور نعمتوں کے مستحق قرار پائے بہرحال ، خداوند متعال نے اس سورہ میں جناب یوسف (ع) کی داستان اس خواب سے شروع کی ہے جو بچپن میں انہوں نے اپنے باپ کے دامن تربیت میں دیکھا تھا وہ خواب جو ایک غیبی بشارت تھی اور بعد میں ظاہر ہوئی ۔

 

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلامی روایات کے مطابق بعض یہودیوں نے مشرکین مکہ کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ رسول اسلام (ص) سے سوال کریں کہ بنی اسرائیل کے مصر منتقل ہونے کی وجہ کیا ہے کیونکہ بنی اسرائيل حضرت یعقوب (ع) کی اولاد  ہیں اور وہ شام میں رہتے تھے چنانچہ مشرکین نے مرسل اعظم (ص) سے جب یہ سوال کیا تو جواب میں یہ سورہ نازل ہوا اس پس منظر میں کہا جا سکتا ہے کہ سورۂ یوسف (ع) کے نزول کا مقصد ہی آل یعقوب (ع) منجملہ حضرت یوسف (ع) کی داستان بیان کرنا ہے البتہ اس داستان کے مطالب اس ولایت کے ترجمان ہیں جو خدا اپنے مخلص بندوں پر رکھتا ہے جو سورہ کے آغاز اور اختتام میں پوری طرح نمایاں ہے ۔ سورہ کا آغاز کرتے ہوئے خدا فرماتا ہے :

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم ، الر تلک ایات الکتاب المبین ، انّا انزلناہ قرانا عربیّا" لعلکم تعقلون ۔

 

یعنی شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا بخشنے اور رحم کرنے والا ہے ، الف لام  را، یہ ہیں روشن و واضح کتاب کی آیات اورنشانیاں جو ہم نے عربی قرآن ( کی صورت میں ) نازل کی ہیں کہ شاید تم کو ( غور و فکر کے ذریعہ ) سمجھ میں آ جائے ۔

عزیزان محترم ! آیت میں دور کے لئے استعمال ہونے والے " تلک " سے اشارہ آیتوں کی عظمت کے سبب ہے چنانچہ قرآن حکیم کے دوسرے 29 سوروں کی مانند سورۂ یوسف (ع) بھی حروف مقطعہ سے شروع ہوا ہے اور رمز کی صورت میں اللہ نے اپنے حبیب (ص) سے بات کی ہے اور یہ چیز خود قرآنی اعجاز میں شمار ہوتی ہے کیونکہ ان سوروں میں زیادہ تر حروف مقطعہ کے بعد قرآن حکیم اور اس کی آیتوں کی عظمت و برتری کی بات کی گئی ہے ۔ گویا خدا نے دوسروں کو عجم اور گونگا کہنے والے عربوں کو متوجہ کیا ہے کہ ہم اپنا یہ معجزہ " قرآن " عربی زبان کے ہی الف با میں نازل کرکے تمہارے حوالے کررہے ہیں اگر تم سے بھی ممکن ہے تو ان ہی حروف سے قرآن کے مثل تم بھی استفادہ کرکے دکھاؤ ۔مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن جوہم نے عربی میں نازل کیا ہے نزول کے مرحلے میں عربی قرات کا ہی اس کو لباس عطا کیا ہے اور عرب جس انداز سے عربی کے الفاظ پڑھتے ہیں ان ہی الفاظ کے زیور سے یہ بھی آراستہ ہے کہ تم عقل سے کام لے کر اسے سمجھ سکو ۔

سورت الفاتحه

لیکن اس کتاب کی آیات الہیہ ، حقائق و معارف پر مبنی آیتیں ہیں جو عقل و تدبر کی محتاج ہیں جیسا کہ سورۂ زخرف کی تیسری آیت میں بھی خدا نے فرمایا ہے  : " انّا جعلناہ قرانا عربیّا لّعلّکم تعقلون " کہ ہم نے یہ قرآن عربی میں قراردیا ہے تاکہ تم اس کو سمجھ سکو ۔ چنانچہ اگر یہ عربی کی عام زبان میں نہ ہوتا تو قوم والے اس کو سمجھ نہیں سکتے تھے اس کے تمام اسرار مرسل اعظم (ص) سے مخصوص ہو جاتے ۔ بہرحال آیت سے دو باتیں واضح ہیں ایک تو یہ کہ قرآن ایک روشن و واضح کتاب ہے جو حق و حقیقت کی راہ دکھاتی ہے اور دوسری بات یہ کہ تمام لوگ عقل وفکر سے کام لے کر اس کو سمجھیں اور فائدہ اٹھائیں یہ ان سب کا فریضہ ہے ۔

اور اب سورۂ یوسف کی تیسری آیت ،خدا فرماتا ہے :

" نحن نقص علیک احسن القصص بما اوحینا الیک ھذالقران و ان کنت من قبلہ لمن الغافلین " یعنی [ اے پیغمبر(ص) ! ] ہم اس قرآن کے ذریعہ جو ہم نے آپ پر وحی کیا ہے بہترین داستان آپ کے سامنے بیان کررہے ہیں اگرچہ اس سے پہلے دوسروں کی طرح آپ بھی اس سے بے خبر ہوں ۔

عزیزان محترم ! آیت میں پیغمبر (ص) سے خطاب ہے کہ ہم نے قرآن ، وحی کے ذریعہ آپ تک پہنچایا ہے اور بہترین شکل میں زمانۂ گزشتہ کی باتیں آپ سے بیان کی ہیں اور یہ آیات بھی ، اللہ کی کتاب قرآن اور وحی کا حصہ ہیں کہ جن میں بہترین داستان ہم بیان کر رہے ہیں ۔ بنیادی طور پر قصے اور داستانیں ، قوموں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں چاجائیکہ وہ قرآن میں بیان شدہ سچے واقعات ہوں اسی لئے اخلاق و تربیت کے لحاظ سے قرآنی داستانوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام اپنے فرزند امام حسن (ع) کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں : " بیٹے ! میں نے پچھلے لوگوں کی سرگزشت اس طرح مطالعہ کی ہے کہ گویا ان کے درمیان زندگي گزاری ہو اور ان کے برابر میں نے عمر کی ہو ۔"

 

بہرحال آیت میں خدا نے خود کو ایک قصہ گو کے عنوان سے پیش کیا ہے اور نبی اکرم (ص) سے قصۂ یوسف (ع) نقل کرکے اس کو "احسن القصص " قراردیا ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ " ولایت الہیہ " پر یقین رکھنے والے ایک مؤمن و امین ، صابر و شاکر جوان کی پاکیزگي و اخلاص کی داستان ہے کہ جس نے عنفوان شباب میں اپنے درونی دشمن نفس کے ساتھ بیرونی دشمنوں کو بھی ہر محاذ پر شکست دی ہے ۔اس داستان میں ، عشق و دشمنی ، فراق و وصال ، خوشی اور غم ، قحط و فراوانی ، وفا و جفا ، غلامی اور حکمرانی ، الزام و اعتماد ، خیانت و امانت داری سب کچھ جمع ہے ۔آخر آیت میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ خدا نے قصۂ یوسف (ع) سے مرسل اعظم (ص) کی بے خبری کی بات اس لئے کی ہے کہ مشرکین اور یہود یہ دعویٰ نہ کریں کہ خدا کے نبی (ص) نے کسی اور سے سن کر یہ داستان سنا دی ہے بلکہ یہ پوری داستان وحی الہی ہے اور اس میں جھوٹ کا کہیں سے کوئی دخل نہیں ہے ورنہ بعض نے اس کو نبی (ص) کے عالم الغیب نہ ہونے کی دلیل قرار دیا ہے جو صحیح نہیں ہے ۔

                           اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

قرآن کا تبلیغی انداز

 قرآن حکيم ميں قرآن کے بارے ميں بيان

دعوت مطالعہ

 فہم قرآن کے لۓ چند شرائط