• صارفین کی تعداد :
  • 3256
  • 12/15/2013
  • تاريخ :

قمه زني و عشق و عقل و معرفت 3

عاشورا

قمه زني و عشق و عقل و معرفت 1

قمه زني و عشق و عقل و معرفت 2

سوال:

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ قمہ زني اور زنجير زني کا تعلق جذبۂ عشق سے ہے؛ دين کے امور ميں عقل کا کردار کيا ہوسکتا ہے؟

جواب:

اس سلسلے ميں جس حديث سے استناد کيا گيا ہے وہ الکافي کي پہلي اور ابن ابي الحديد کي شرح نہج البلاغہ کي اٹھارہويں جلد ميں امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے اور راوي اسحاق بن عمار ہيں. حديث کي عبارت:

{علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن يحيى بن المبارك، عن عبد الله بن جبلة، عن إسحاق بن عمار، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: قلت له: جعلت فداك إن لي جارا كثير الصلاة، كثير الصدقة، كثير الحج لا بأس به  قال: فقال: يا إسحاق كيف عقله؟ قال: قلت له: جعلت فداك ليس له عقل، قال: فقال: لا يرتفع بذلك منه}- (1)

ترجمہ: اسحاق کہتے ہيں: ميں نے امام صادق عليہ السلام سے دريافت کيا: آپ پر قربان جاۆں! ميرا ايک پڑوسي ہے جو زيادہ نماز پڑھنے والا، زيادہ صدقہ و خيرات دينے والا اور زيادہ حج بجالانے والا ہے اور مجموعے طور پر برا آدمي نہيں ہے (يعني اہل دين کے لئے اس سے کوئي عداوت ظاہر نہيں ہوئي اور مۆمنين پر شدت کا مرتکب نہيں ہۆا ہے اور ابھي تک کسي نے اس کو گناہ کرتے ہوئے بھي نہيں ديکھا ہے) امام عليہ السلام نے فرمايا: اے اسحاق! اس کي عقل کيسي ہے؟ ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر قربان جاۆں اس شخص ميں عقل نہيں ہے. امام (ع) نے فرمايا: پس ايسي صورت ميں اس کے يہ تمام اعمال بارگاہ خداوند ميں قابل قبول نہيں ہيں. پر روايت ہے:

{عن إبراهيم بن إسحاق الأحمر، عن محمد بن سليمان الديلمي، عن أبيه قال: قلت لأبي عبد الله عليه السلام: فلان من عبادته ودينه وفضله؟ فقال: كيف عقله؟ قلت: لا أدري، فقال: إن الثواب على قدر العقل}- (2)

ابراہيم بن اسحاق احمر نے محمد بن سليمان الديلمي سے اور انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے روايت کي ہے؛ کہتے ہيں ميں نے امام عليہ السلام سے عرض کيا: فلان شخص بہت زيادہ عبادت کرتا ہے ديندار ہے اور بہت بافضيلت انسان ہے تو امام عليہ السلام نے دريافت کيا: اس کي عقل کيسي ہے؟ ميں نے عرض کيا: ميں اس کي عقل کے بارے ميں کچھ نہيں جانتا. امام (ع) نے فرمايا: ثوابِ الہي عقل کي مقدار پر منحصر ہے...

--------------

1- الکافي ج1 ص 24- شرح نہج البلاغہ ج 18 ص 186-

2- الکافي ج 1 ص 11 اور 12-