• صارفین کی تعداد :
  • 4772
  • 10/27/2013
  • تاريخ :

حرام تقيہ

حرام تقیہ

''تقيہ'' قرن و سنت كے ئينہ ميں (حصّہ اول)

تقيہ اور نفاق (حصّہ دوم)

کتاب الہي ميں تقيہ (حصّہ سوم)

اسلامي روايات ميں تقيہ (حصّہ چہارم)

تقيہ اور اسلامي روايات (حصّہ پنجم)

روايات اسلامي اور تقيہ (حصّہ ششم)

تقيہ اور تاريخ اسلام کا ايک واقعہ (حصّہ ہفتم)

7) حرام تقيہ:

بعض موارد ميں تقيہ حرام ہے اور يہ اس وقت ہے كہ جب ايك فرد يا گروہ كے تقيہ كرنے اور اپنا مذہبى عقيدہ چھپا نے سے اسلام كى بنياد كو خطرہ لاحق ہوتا ہو يا مسلمانوں كو شديد نقصان ہوتا ہو- اس وقت اپنے حقيقى عقيدہ كو ظاہر كرنا چاہيے، چاہے ان كے لئے خطرے كا باعث ہى كيوں نہ ہو -اور جو لوگ خيال كرتے ہيں كہ يہ اپنے آپ كو ہلاكت ميں ڈالنا ہے اور قرآن مجيد نے صراحت كے ساتھ اس سے منع فرمايا ہے ( ولا تلقو بايديكم الى التہلكة) يہ

لوگ سخت خطاء سے دوچار ہيں كيونكہ اس كا لازمہ يہ ہے كہ ميدان جہاد ميں حاضر ہونا بھى حرام ہو حالانكہ كوئي بھى عاقل ايسى بات نہيں كرتا ہے -يہاں سے واضح ہوتا ہے كہ يزيد كے مقابلے ميں امام حسين - كا قيام يقينا ايك دينى فريضہ تھا - اسى لئے امام - تقيہ كے طور پر بھى يزيديوں اور بنو اميہ كے غاصب خلفاء كے ساتھ كسى قسم كى نرمى دكھانے پر راضى نہ ہوئے- كيونكہ وہ جانتے تھے كہ ايسا كرنے سے اسلام كى بنياد كو شديد دھچكا لگے گا- آپ (ع) كا قيام اور آپكى شہادت مسلمانوں كى بيدارى اور اسلام كو جاہليت كے چنگل سے نجات دلانے كا باعث نبي-

(مصلحت آميز ) تقيّہ: يہ تقيہ كى ايك دوسرى قسم ہے اور اس سے مراد يہ ہے كہ ايك مذہب والے ،مسلمانوں كى صفوں ميں وحدت برقرار ركھنے كے لئے ان باتوں ميں جن سے دين و مذہب كى بنيادكو كوئي نقصان نہيں پہنچتا، دوسرے تمام فرقوں كے ساتھ ہماہنگى اور يكجہتى كا ثبوت ديتے ہيں - مثلا مكتب اہل بيت كے پيرو كار يہ عقيدہ ركھتے ہيں كہ كپڑے اور قالين پر سجدہ نہيں ہوتا اور پتھريا مٹى و غيرہ پر سجدہ كرنا ضرورى ہے -اور پيغمبر اكرم (ص) كى اس مشہور حديث (جعلت لى الارض مسجداً و طہورا)(12) ''زمين كو ميرے لئے محل سجدہ اور وسيلہ تيمّم قرار ديا گيا ہے '' كو اپنى دليل قرار ديتے ہيں اب اگر وہ وحدت برقرار ركھنے كيلئے ديگر مسلمانوں كى صفوں ميں انكى مساجد ميںيامسجد الحرام اور مسجد نبوى ميں جب نماز پرھتے ہيں تو ناگزير كپڑے پر سجدہ كرتے ہيں - يہ كام جائز ہے اور ايسى نماز ہمارے عقيدہ كے مطابق درست ہے اور اسے ہم مدارا كرنے والا ( مصلحت آميز )تقيہ كہتے ہيں -كيونكہ اس ميں جان و مال كا خوف دركار نہيں ہے بلكہ اس ميں تمام اسلامى فرقوں كے ساتھ مدارا كرنے اورحسن معاشرت كا عنوان در پيش ہے -تقيہ كى بحث كا ايك بزرگ عالم دين كے كلام كے ساتھ اختتام كرتے ہيں -

ايك شيعہ عالم دين كى مصر ميں الازہر كے ايك بزرگ استاد سے ملاقات ہوئي اس نے شيعہ عالم كو سرزنش كرتے ہوئے كہا-ميں نے سنا ہے تم لوگ تقيہ كرتے ہو؟ شيعہ عالم دين نے جواب ميں كہا( لعن الله من حملنا على التقية ) رحمت الہى سے دور ہوں وہ لوگ جنہوں نے ہميں تقيہ پر مجبور كيا (13) (ختم شد)

 

حوالہ جات :

1)سورہ غافر آيت 28-

2)سورہ آل عمران آيت 28-

3) سورة النحل آيت 106-

4) مسند ابى شيبہ ، ج12 ص 358-

5) بحارالانوار ، جلد 109، ص 254-

6) سورة آل عمران آية 28-

7) تفسير كبير فخر رازي، جلد 8 ص 13-

8) تفسير نيشابورى (تفسير الطبرى كے حاشيہ پر) جلد 3، ص 118-

9) طبقات ابن سعد، جلد 7،ص 167، چاپ بيروت-

10) يہ شام ميں دريا كے كنارے ايك شہر ہے (معجم البلدان جلد4، ص 30)-

11) تاريخ طبرى جلد 7، ص 197-

12)صحيح بخارى جلد 1 ص 91و سنن بيہقى ،جلد 2 ص 433(اور بھى بہت سى كتب ميں يہ حديث نقل ہوئي ہے )-

13) يعنى اگر دشمنوں كى طرف سے ہمارى جان و مال كو خطرہ نہ ہوتا تو ہم كبھى بھى تقيہ نہ كرتے (مترجم)

 

 

نام كتاب: شيعہ جواب ديتے ہيں

مۆلف: حضرت آيت اللہ العظمى مكارم شيرازي


متعلقہ تحریریں:

بڑے مفسروں کي رائے شب قدر کے بارے ميں

روزہ کي اہميت اور فضيلت کے بارے ميں چند احاديث