• صارفین کی تعداد :
  • 5198
  • 6/16/2010
  • تاريخ :

امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب

امام حسين(ع)

 امام حسين کي حيا ت طيبہ کا اجمالي جائزہ

امام حسين کي زندگي کے تين دور

سب سے پہلے مرحلے پر يہ سمجھنا چاہيے کہ يہ واقعہ کتنا عظيم ہے تاکہ اِس کہ علل و اسباب کو تلاش کيا جائے۔ کوئي يہ نہ کہے کہ واقعہ کربلا ميں صرف قتل ہوا ہے اور چند افراد قتل کرديے گئے ہيں۔ جيسا کہ ہم سب زيارت عاشورا ميں پڑھتے ہيں کہ ’’لَقَد عَظُمَتِ الرَّزِيَّۃُ وَ جَلَّت وَ عَظُمَتِ المُصِيبَۃُ ‘‘۔ يہ مصائب و مشکلات بہت بڑي تھيں۔ ’’رزيّۃ‘‘ يعني بہت عظيم حادثہ؛ يہ حادثہ اور واقعہ بہت عظيم اور کمر توڑ دينے والا اور اپني نوعيت کا بے نظير واقعہ ہے ۔ لہٰذا اِس واقعہ کي عظمت و بزرگي کا اندازہ لگانے کيلئے ميں سيد الشہدا کي حيات طيبہ سے تين ادوار کو اجمالي طور پر آپ کے سامنے بيان کرتا ہوں۔ آپ ملاحظہ فرمائيے کہ سيد الشہدا کي حيات کے اِن تين ادوار کا مطالعہ کرنے والا شخص اِن تينوں زمانوں ميں ايک ايسي شخصيت کو سامنے پاتا ہے کہ جس کيلئے يہ گمان بھي نہيں کيا جاسکتا ہے کہ نوبت يہاں تک جا پہنچے گي کہ اِس شخصيت کے جدّ کي امت کے کچھ افراد روز عاشورا اُس کا محاصرہ کرليں اور اُسے اور اُس کے اصحاب و اہل بيت کا نہايت سفاکانہ اور دردناک طريقے سے قتل عام کريں اور خواتين کو اسير و قيدي بناليں!

اِن تينوں زمانوں ميں سے ايک دور پيغمبر اکرم (ص)  کي حيات کا زمانہ ہے ، دوسرا زمانہ آپٴ کي جواني يعني رسول اکرم (ص)  کے وصال کے بعد پچيس سال اور امير المومنين کي حکومت تک کا زمانہ ہے جبکہ تيسرا زمانہ امير المومنين کي شہادت کے بعد بيس سال کے عرصے پر محيط ہے۔

دورِ طفوليت

پيغمبر اکرم (ص)  کي حيات ِ طيبہ کے اِس نوراني دور ميں امام حسين حضرت ختمي مرتبت (ص)  کے نور چشم تھے۔ پيغمبر اکرم (ص)  کي ايک صاحبزادي تھيں بنام فاطمہ ٭ کہ اُس زمانے کے تمام مسلمان جانتے تھے کہ پيغمبر اکرم (ص)  نے اُن کے بارے ميں فرمايا کہ ’’اِنَّ اللّٰہَ لِيَغضِبَ لِغَضَبِ فَاطِمَۃ وَ يَرضيٰ لِرِضَاھَا‘‘ ١ ، ’’اگر کسي نے فاطمہ کو غضبناک کيا تو اُس نے غضب خدا کو دعوت دي ہے اور اگر کسي نے فاطمہ کو خوش کيا تو اُس نے خدا کو خوشنود کيا‘‘۔ توجہ فرمائيے کہ يہ صاحبزادي کتني عظيم المرتبت ہے کہ حضرت ختمي مرتبت (ص)  مجمع عام ميں اور کثير تعداد کے سامنے اپني بيٹي کے بارے ميں اِس طرح گفتگو فرماتے ہيں؛ يہ کوئي عام بات نہيں ہے۔

پيغمبر اکرم (ص)  نے اپني اِس بيٹي کا ہاتھ اسلامي معاشرے کے اُس فرد کے ہاتھ ميں ديا کہ جو عظمت و بلندي اور اپني شجاعت و کارناموں کي وجہ سے بہت بلند درجے پر فائز تھا، يعني علي ابن ابي طالب ۔ يہ جوان، شجاع ، شريف، سب سے زيادہ با ايمان، مسلمانوں ميں سب سے زيادہ شاندار ماضي کاحامل، سب سے زيادہ شجاع اور تمام نبرد و ميدان عمل ميں آگے آگے تھا ۔ يہ وہ ہستي ہے کہ اسلام جس کي شمشير کا مرہونِ منت ہے، يہ جوان ہر اُس جگہ آگے آگے نظر آتا ہے کہ جہاں سب (بڑے بڑے سورما اور دلير)پيچھے رہ جاتے ہيں، اپنے مضبوط ہاتھوں سے گھتّيوں کو سلجھاتا ہے اور راستے ميں آنے والي ہر رکاوٹ کوتہس نہس کرديتا ہے؛ يہ وہ عزيز ترين اور محبوب ترين داماد ہے کہ جسے خدا کے آخري رسول (ص)  نے اپني بيٹي دي ہے ۔ اُس کي يہ محبوبيت رشتہ داري اور اقربا پروري اور اِسي جيسے ديگر امور کي وجہ سے نہيں ہے بلکہ اُس شخصيت کي عظمت کي وجہ سے ہے۔ اِس عظيم جوان اور اِس عظيم المرتبت بيٹي سے ايک ايسا بچہ جنم ليتا ہے کہ جو حسين ابن علي کہلاتا ہے۔

البتہ يہي تمام باتيں اور عظمتيں امام حسن کے بارے ميں بھي ہيں ليکن ابھي ہماري بحث صرف سيد الشہدا کے بارے ميں ہے۔ حسين ابن علي ، پيغمبر اکرم (ص)  کے نزديک لوگوں ميں سب سے زيادہ عزيزہیں۔ حضرت ختمي مرتبت (ص)  جو دنيائے اسلام کے سربراہ، اسلامي معاشرے کے حاکم اور تمام مسلمانوں کے محبوب رسول اور قائد ہيں، اِس بچے کو اپني آغوش ميں ليتے ہيں اور اُسے اپنے ساتھ مسجد ميں لے جاتے ہيں۔ سب ہي يہ بات اچھي طرح جانتے ہيں کہ يہ بچہ، تمام مسلمانوں کي محبوب ترين ہستي کے دل کا چين، آنکھوں کا نور اور اُس کا محبوب ہے۔ رسول اکرم (ص)، منبر پر خطبہ دينے ميں مصروف ہيں، اِس بچے کا پير کسي چيز سے الجھتا ہے اور زمين پر گر جاتا ہے، پيغمبر اکرم (ص)  منبر سے نيچے تشريف لاتے ہيں، اُسے اپني گود ميں اٹھا کر پيار اور نوازش کرتے ہيں؛ يہ ہے اِس بچے کي اہميت و حقيقت!

پيغمبر اکرم (ص) نے چھ سات سال کے امام حسن اور امام حسين کے متعلق فرمايا کہ ’’سَيِّدي شَبَابِ اَھلِ الجَنَّۃِ ‘‘ 2  يہ دونوں جوانان جنت کے سردار ہيں ۔ (يا رسول اللہ!) يہ تو ابھي بچے ہيں، ابھي تو سن بلوغ کو بھي نہيں پہنچے اور انہوں نے جواني کي دہليز ميں ابھي تک قدم نہيں رکھا ہے؛ ليکن رسول اکرم (ص)  فرماتے ہيں کہ يہ جوانان جنت کے سردار ہيں يعني يہ بچے چھ سات سال ميں بھي ايک جوان کي مانند ہيں، يہ سمجھتے ہيں، ادراک رکھتے ہيں، عملي اقدام کرتے ہيں اور شرافت و عظمت اِن کے وجود ميں موجزن ہے۔ اگر اُسي زمانے ميں کوئي يہ کہتا کہ يہ بچہ، اِسي پيغمبر کي اُمت کے ہاتھوں بغير کسي جرم و خطا کے قتل کرديا جائے گا تو اُس معاشرے کا کوئي بھي شخص اِس بات کو ہرگز تسليم نہيں کرتا۔ جيسا کہ پيغمبر (ص)  نے يہ فرمايا اور گريہ کيا تو سب افراد نے تعجب کيا کہ کيا ايسا بھي ہو سکتا ہے؟!

حوالہ جات:

١ بحار الانوار ، جلد ٤٣ صفحہ ٤٤

2 بحار الانوار ، جلد١٠، صفحہ ٣٥٣


متعلقہ تحریریں:

ظلم کے مقابلے میں کربلا کے درس پرعمل کی ضرورت

زندگي نامہ حضرت امام حسين عليہ السلام