• صارفین کی تعداد :
  • 3695
  • 2/28/2009
  • تاريخ :

سورہ یوسف ۔ع۔ 24 ویں  آیت کی تفسیر

بسم الله

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

سورۂ یوسف (ع)  کی آیت 24 میں  خدا فرماتے ہیں : 

" و لقد ہمّت بہ و ہمّ بہا لو لا ان رّا برہان ربّہ کذٰلک لنصرف عنہ السّوء و الفحشاء انّہ من عبادنا المخلصین ۔"

( یعنی ) اس عورت ( زلیخا ، عزیز مصر کی بیوی ) نے ( یوسف کی ) نیت کرلی اور ( یوسف بھی ) اگر ان کے پروردگار کی دلیل سامنے نہ ہوتی اس کی نیت کر بیٹھتے ، اس طرح ہم نے ہر طرح کی برائی ان سے دور کردی کیونکہ وہ ہمارے منتخب بندوں میں سے ہیں ۔

عزیزان محترم ! اپنی نوجوانی کے تمام تقاضوں کے ساتھ نہایت ہی بحرانی حالات میں حضرت یوسف (ع) سے متعلق خود اللہ نے اس آیت میں ذہنوں کو متوجہ کیا ہے کہ یوسف (ع) اگرچہ ہمارے نبی اور مخلص و دیندار بندے تھے پھر بھی اگر ہماری توجہ اور امداد کا مرکز نظر نہ ہوتے وہ اپنے فطری جذبات و خواہشات کے تحت ، جس طرح عزیز مصر کی بیوی یوسف (ع) کی نیت کئے ہوئے تھی یوسف (ع) بھی اس عورت کی نیت کر بیٹھتے اور گناہ کے مرتکب ہوجاتے ۔ یوسف ( ع) کے قلب میں روش نور ایمان نے الہی وجود کی ایک محکم و استوار دلیل اور برھان کا کام کیا اور اس بری نیت سے بچا لیا اور حیوانی خواہشات سے مغلوب ہونے نہیں دیا ، ظاہر ہے نبوت کی دلیل و برھان وہی حق و باطل میں تمیز کی قوت اور حرام و حلال میں امتیاز کی صلاحیت ہے جو معصوموں کے ساتھ رہتی ہے جس کو قرآن نے الہی دلیل سے تعبیر کیا ہے ۔ یہی الہی قوت ایمان ، قوت عقلیہ کی رہنمائی کرتی ہے اور خدا کے مخلص و مومن بندوں کی عقل کو نفسانی خواہشات کے سامنے مغلوب ہونے سے بچا لیتی ہے اور عقل کے ناکارہ ہونے میں رکاوٹ بنتی ہے چنانچہ جہاں قوت ایمان کمزور پڑجاتی ہے وہیں حیوانی جذبے عقل پر غلبہ حاصل کرکے انسانوں کو گناہ کے دلدل میں ڈھکیل دیتے ہیں ۔ اور اب زیر بحث آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ :

 انسان کے اندر حیوانی خواہشیں اس قدر شدت و قوت کے ساتھ کارفرما ہوتی ہیں کہ اگر ایمان و عقل کنٹرول سے کام نہ لے تو شاہوں اور امیروں کی بیویاں اور بیٹیاں بھی غلاموں اور ملازموں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے پر تیار ہوجاتی ہیں ۔

اور کبھی کبھی نامحرم مردوں اور عورتوں کا ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور زندگي گزارنا عشق و محبت کے طوفان کھڑے کرکے سماجی رشتوں کو بھی پامال کردیتا ہے ، اور تنہائي گناہ کے مواقع فراہم کردیتی ہے اسی لئے کہتے ہیں صحت مند رہنے کے لئے بیماری سے قبل پرہیز کرنا چاہئے جس کو دین کی زبان میں تقوے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ نامحرموں کا تنہائی میں ملنا جلنا اگر نہ ہو تو گناہ کے ارتکاب کے لئے ماحول فراہم نہیں ہوگا اور ایک بڑی بیماری سے معاشرہ محفوظ رہے گا ۔

خدا کی اطاعت ، مخلوق خدا کو راضی رکھنے کی فکر سے بالاتر ہے ، خدا کے بندے کسی بھی مقام و منصب کے مالک ہوں خدا نہیں ہیں لہذا اپنے سے بالاتر کی اطاعت ، گناہ میں ہرگز نہیں کرنی چاہئے ۔

اگر ایک طرف تمام دروازہ بند ہوں تو رحمت الہی کا دروازہ بندگان مخلصین کے لئے کھلارہتا ہے بندہ اگر خدا سے پناہ طلب کرے تو ہر گناہ سے نجات مل سکتی ہے ۔

دل کی گہرائیوں کے ساتھ خدا سے توسل ، الہی امداد کے دروازے کھول دیتا ہے اور اگر خدا کی مدد نہ ہو تو ہر کوئی گناہ کا مرتکب ہوسکتا ہے ۔

بندگی میں اخلاص کے اثرات اس دنیا میں بھی مرتب ہوتے ہیں ، سخت و دشوار حالات میں بھی مومن ،گناہ کے دلدل سے صحیح و سالم نکل آتا ہے ۔

انبیا علیہم السلام بھی نفسانی خواہشات رکھتے ہیں لیکن الہی دلیل یعنی ایمان و معرفت کے سبب گناہ کی نیت و عمل سے بچ جاتے ہیں اور خدا ان کو خطاؤ انحرافات سے محفوظ رکھتا ہے ۔

 

                        اردو ریڈیو تہران