• صارفین کی تعداد :
  • 5359
  • 12/28/2008
  • تاريخ :

عربوں کی آمد کے  موقع پر ایران کے حالات

جنگ نھاوند

ساسانیوں نے ایران پر چار سو سال سے بھی زیادہ حکومت کی مگر جنگ نھاوند ( جسے عرب لوگ ''فتح الفتوح '' کہتے ہیں ) کے بعد یہ دور حکومت اختتام پذیر ہو  گیا ۔ ساسانی دور حکومت کے  آخری بادشاہ دس سال تک راہ فرار اختیار کرتے ہوۓ روپوش رہے ۔ اس کے بعد بادشاہ نے اپنی کھوئی  ہوئی حکومت کو حاصل کرنے کی کوشش تو کی مگر اسی  تگ و دو میں بادشاہ ملک کے شمال مشرقی حصے میں ایک  شخص کے ہاتھوں بے نام و نشان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ بادشاہ کے مرنے سے عربوں کے خلاف ہر طرح کی منظم مزاحمت ختم ہوکر رہ  گئی لیکن ملک کے مختلف حصّوں میں مقامی طور پر اب بھی مزاحمت کا سلسلہ جاری تھا ۔

 

ایران اس زمانے میں ایک  وسیع اور پختہ عقائد رکھنے والے لوگوں کا وطن تھا جو اپنے آباؤ اجداد کے عقائد اور  رسم و رواج پر سختی سے عمل پیرا تھے ۔ ان لوگوں پر ثقافتی طور پر فتح حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ جب مسلمان فاتح بن کر اس علاقے میں آۓ تو انہوں نے مقامی آبادی کو ( جو دین زرتشت کے پیروکار تھے ) اپنا دین تبدیل کرنے پر مجبور نہ کیا اور ان کو بھی یھود و نصار کی طرح اھل کتاب میں شمار کیا ۔ یوں اسلامی حکومت کی رو سے وہ لوگ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں اپنے عقائد پر قائم رہ سکتے تھے ۔ مسلمان فاتحین نے تو زرتشتیوں کو کوئی تکلیف نہ دی مگر ایک مدت کے بعد مقامی مسلمان آبادی نے اپنے اردگرد رہنے والے زرتشت مذھب کے پیروکاروں کو تنگ کرنا شروع کر دیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ  بہت بڑی تعداد میں زرتشتی ہندوستان کی طرف ہجرت کر گۓ ۔

 

تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ ایرانیوں کے لیۓ مذھب اسلام قبول کرنا آسان ثابت ہوا کیونکہ ان کے  لیۓ کافی تھا کہ وہ  ''ھرمزد ''( ان کا کلمہ مقدس )  کی جگہ '' اللہ '' کہنا شروع کر دیں ،'' اھریمن '' کی بجاۓ '' شیطان '' اور '' زرتشت '' کی جگہ '' ابراھیم خلیل '' ۔  ان کے وہ عقائد جو اسلام سے قریب تھے ان کو بھی انہوں نے بہت ہی جلد اپنا لیا ۔

 

                      شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

 سلسلہ ھخامنشی

 قوم ماد