• صارفین کی تعداد :
  • 3945
  • 12/13/2008
  • تاريخ :

سورۃ یوسف ( 16 تا 18  )  آیات کی تفسیر

قرآن کریم

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

مرسل اعظم (ص) اور ان کی اولاد مکرم (ع) پر درود و سلام کے ساتھ ، الہی تعلیمات پر مشتمل پیام قرآن میں ہم اپنی یہ سلسلہ وار تفسیر سورۂ یوسف کی سولہویں آیت سے شروع کر رہے ہیں ، جناب یوسف ( ع) کے ساتھ ان کے بھائیوں کی خیانت کا ذکر کرتے ہوئے خدا فرماتا ہے :

" و جاء و اباہم عشاء یّبکون "

اور وہ ( برادران یوسف ) رات کے وقت اپنے باپ کے پاس روتے دھوتے آئے ۔

 عزیزان محترم ! جیسا کہ اس سے قبل آپ نے ملاحظہ فرمایا جناب یوسف (ع) کے بھائیوں نے اپنے منصوبے کے تحت انہیں کنویں میں ڈال دیا اور واپس ہو لئے مگر ظاہر ہے انہیں باپ کی محبت حاصل کرنے کے لئے اپنی بے گناہی اور یوسف (ع) سے محبت کا ثبوت بھی باپ کے سامنے پیش کرنا تھا لہذا خدا فرماتا ہے وہ دن گزار کر شب ڈھلے روتے دھوتے باپ کے پاس واپس لوٹے تاکہ اپنی نازیبا حرکت پر پردہ ڈال سکیں ۔ چنانچہ اس کے بعد سورۂ یوسف (ع) کی سترہویں آیت میں ان کا سفید جھوٹ نقل کرتے ہوئے خدا فرماتا ہے :

قالوا یا ابانا انّا ذھبنا نستبق و ترکنا یوسف عندمتا عنا فاکلہ الذّئب و ما انت بمؤمن لّنا و لو کنّا صادقین

یعنی ( انہوں نے ) کہا : اے ہمارے بابا ! ہم ( ایک دوسرے سے مقابلے کے لئے ) دوڑ لگانے چلے گئے اور اپنا سب سامان یوسف کے پاس رکھ کر انہیں اکیلا چھوڑدیا اور بھیڑیا ان کو کھا گیا اور ہماری بدبختی یہ ہے کہ  (ایک طرف تو ہماری چھوٹی سی غلطی نے کہ ہم نے انہیں اکیلا چھوڑدیا تھا ہم سے ہمارا بھائی چھین لیا اور دوسری طرف ہمیں معلوم ہے کہ ) آپ کبھی یہ ماننے کو تیار نہ ہوں گے کہ ہم سچ بول رہے ہیں چاہے ہم کتنا ہی سچ کیوں نہ بول رہے ہوں ۔

 

قرآن کریم کی یہ پوری گفتگو ، ان انسانی نفسیات پر استوار ہے جو ایسے مواقع پر ، ہر خطا کار خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے اپناتا ہے مکاری کی رلائي اور خود ہی اپنی خود ساختہ داستان کے بارے میں یہ کہنا کہ آپ کو ہماری بات پر یقین نہیں آئے گا کیونکہ ہمارا عذر قابل قبول نہیں ہے مگر کیا کریں حقیقت یہی ہے جو ہم کہہ رہے ہیں اب آپ کو ہماری بات پر یقین کرنا ہی ہوگا اس کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے ۔اس کے بعد سورۂ یوسف کی آیت اٹھارہ میں خدا فرماتا ہے :

و جاؤ علی قمیصہ بدم کذب قال بل سوّلت لکم انفسکم امرا" فصبر جمیل و اللہ المستعان علی ما تصفون

( یعنی ) اور وہ [ یوسف (ع) کی ] قمیص جو جھوٹ موٹ کے خون میں آلودہ تھی ، باپ کے پاس لے آئے تو انہوں نے کہا ( یوسف کو بھیڑیے نے پھاڑ کھایا ہو ایسا نہیں ہے ) تمہاری نفسانی ہوسوں نے ( اس طرح کی بات ) گڑھ لی ہے پس میرے لئے صبر جمیل کا راستہ بہتر ہے اور تم جو کچھ کہہ رہے ہو اس کے لئے میں خدا سے مدد کا طالب ہوں ۔

عزیزان محترم ! یوسف کے بھائیوں نے انہیں کنویں میں ڈالنے کے بعد ، اپنے باپ کے سامنے گریہ و نالے کے ساتھ یوسف ( ع) کو بھیڑیے کے کھا جانے کی جو جھوٹی داستان گڑھی تھی اس کو صحیح ثابت کرنے کے لئے یوسف ( ع)  کی قمیص کسی جانور کے خون میں آغشتہ کرلی تھی جسے انہوں نے باپ کے سامنے رکھ دیا جناب یعقوب (ع) کی بے چارگی اس سے بڑی کیا ہوسکتی ہے کہ وہ نبی خدا ہونے کی حیثیت سے جانتے ہیں جناب یوسف (ع) کو بھیڑیے نے نہیں کھایا ہے مگر خود اپنے بیٹوں کی خیانت اور کینہ وحسد کا شکوہ کس سے کریں ؟ لہذا بیٹوں سے کہتے ہیں : یوسف کو بھیڑیے نے پھاڑ کھایا ہو ایسا نہیں ہے تم لوگوں نے نفسانی خواہشوں میں پڑ کر یہ فرضی داستان گڑھ لی ہے صبر وتحمل ہی میرے لئے بہتر ہے البتہ تمہاری حرکتوں کے سلسلے میں خدا سے مدد کا طلبگار ہوں وہی یوسف ( ع)  کی حفاظت اور تم کو تمہاری خیانت سے پشیمان کرسکتا ہے میرا یوسف (ع) تم لوگوں نے میری نگاہوں سے اوجھل کردیا اگرچہ مجھے معلوم ہے خدا اس کی حفاظت کرے گا کیونکہ خدا کو اس سے ایک عظیم کام لینا ہے مگر اس کے فراق اور جدائی کا غم مجھے آنسو بہانے پر مجبور کرے گا یہ فراق صبر کا طالب ہے البتہ یہ صبر اور بیٹے کی جدائی کا حوصلہ خدا کی مدد کے بغیر ناممکن ہے ۔

 

اور اب زیر بحث آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا ایک خلاصہ :

 

1۔ انسان کو ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں ، چنانچہ جناب یوسف (ع) کے بھائیوں نے بھی اپنی ایک غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے باپ کے سامنے پے درپے کئی جھوٹ بولے اوراس بات کو بھلا دیا کہ جب جھوٹ آشکار ہوگا تو کس قدر شرمندگی اور رسوائی اٹھانا پڑے گی ۔

" جھوٹ " وہ برائي ہے کہ خود جھوٹ بولنے والا خود کو سچا ثابت کرنے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بولتا جاتا ہے اور حقیقت برملا ہونے سے ہروقت خوف زدہ رہتا ہے ۔

کبھی کبھی جھوٹ کو چھپانے کے لئے آدمی روتا اور گڑگڑاتا بھی ہے اسی لئے مگرمچھ کے آنسو پر اعتماد کرنے سے منع کیا گیا ہے برادران یوسف ( ع) کا گریہ یا کوفہ و شام کے قاتلین امام حسین (ع) کا گریہ اسی طرح کے گریوں میں شمار ہوتا ہے ۔

سازشیں رچنے والے خائنین بھی کبھی کبھی گریہ و زاری کے ذریعے جذبات و احساسات کو مشتعل کرتے ہیں ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔

نفس انسان اگر گناہ میں آلودہ ہوجائے تو برائیوں کو بھی اچھائیوں کی شکل میں حسین بنا دیتا ہے اور آدمی اپنے گناہ کے لئے دلیلیں تلاش کرلیتا ہے ۔

اولاد کی جدائی کی مانند حادثے کبھی کبھی انسان کے امتحان کا باعث ہوتے ہیں ایسے میں صبر و تحمل انبیاء علیہم السلام کا شیوہ ہے ۔

رونا فطرت ہے اور حضرت یعقوب ( ع) فراق یوسف ( ع ) میں اتنا روئے کہ آنکھیں سفید ہوگئیں مگر صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا خدا کا کوئی شکوہ اور ناشکری کی باتیں زبان پر نہیں آئیں حتی صبر میں بھی خدا سے ہی مدد کے طلبگار رہے ۔ بندۂ مومن کو اس سے سبق لینا چاہئے ۔

 

                           اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں: 

 تفسیر سوره بقره(آیت 26)

 سورۃ یوسف کی تفسیر