• صارفین کی تعداد :
  • 1743
  • 2/9/2018 5:15:00 PM
  • تاريخ :

امام صادق علیہ السلام کی نصیحتیں

امام صادق علیہ السلام کی نصیحتیں

 
امام صادق علیہ السلام کی نصیحتیں

عمر بن مسلم امام صادق (علیہ السلام) کے صحابی تھے۔ کچھ عرصہ وہ امام کی خدمت میں نہ آئے تو امام نے ان کی خبر دریافت کی۔ لوگوں نے کہا کہ انہوں نے تجارت کو ترک کردیا ہے اور عبادت میں مشغول ہوگئے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: وائے ہو اس پر، کیا اسے نہیں معلوم کہ جو شخص طلب رزق کے لیے کوشش نہیں کرےگا اس کی دعا قبول نہیں ہوگی؟ پھر آپ نے فرمایا: پیغمبر اکرم (ص) کے کچھ اصحاب نے آیہ ’’ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا۔ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ‘‘ (سورہ طلاق، آیت2 اور 3: اور جو اللہ سے ڈرتا رہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔ اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو) کے نازل ہونے کے بعد اپنے گھر کے دروازوں کو بند کردیا اور عبادت میں مصروف ہوگئے اور کہا کہ خداوند متعال نے ہماری روزی کا ذمہ لیا ہے۔ جب یہ بات آنحضرت (ص) کو پتہ چلی تو آپ نے فرمایا: جو بھی ایسا کرے گا اس کی دعا قبول نہیں ہوگی لہٰذا تمہیں چاہئے کہ اپنی زندگی کے لیے کوششیں انجام دو۔
بحارالانوار جلد 22، ص 131۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں امام صادق علیہ السلام کے ہمراہ طواف کعبہ میں مشغول تھا کہ طواف کے دوران میرے ایک دوست نے مجھے کنارے آنے کے لیے کہا تاکہ میں اس کی بات سن سکوں۔ میرا دل نہیں مانا کہ میں حضرت سے جدا ہوجاؤں اس لیے میں نے اس کی باتوں پر توجہ نہیں کی۔ طواف کے دوسرے چکر میں اس شخص نے پھر مجھے کنارے آنے کا اشارہ کیا، اس بار امام نے دیکھ لیا اور مجھ سے کہا: وہ کون ہے؟ میں نے کہا: میرا دوست ہے۔ فرمایا: کیا وہ بھی مومن اور شیعہ ہے؟ میں نے کہا: ہاں۔ فرمایا: تو پھر اس کے پاس جاؤ اور اس کی ضرورت برطرف کرو۔ میں نے کہا: کیا طواف کو منقطع کردوں؟ امام نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: کیا اگر طواف واجب ہو تب بھی مومن کی حاجت روائی کے لیے اسے منقطع کیا جاسکتا ہے؟ امام نے فرمایا: ہاں۔ پھر میں نے طواف کو چھوڑا اور اس شخص کے پاس گیا۔ پھر اس کے بعد میں امام کے پاس آیا اور میں نے آپ سے کہا کہ ایک مومن پر دوسرے مومن کے حق کو بیان فرمائیں۔
محجةالبیضاء ج 3 ص 356۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد بن عجلان کہتے ہیں: میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے سلام کیا، حضرت نے اس سے پوچھا: جن بھائیوں سے تم بچھڑ کر آئے ہو ان کا حال کیسا ہے؟ اس نے ان کی تعریف کی۔ امام نے فرمایا: کیا مالدار افراد فقیروں کی عیادت کرتے ہیں؟ کہا: بہت کم۔ کیا ثروتمند افراد فقیروں کی خبر لیتے ہیں؟ کہا: بہت کم۔ پھر فرمایا: کیا امیر غریبوں کی مدد کرتے ہیں؟ کہا: جن صفات کے بارے میں آپ پوچھ رہے ہیں وہ ہمارے لوگوں میں کمیاب ہے۔ تو آپ (ع) نے فرمایا: پھر یہ کیسے اپنے آپ کو شیعہ کہتے ہیں (کہ امیروں اور غریبوں کے درمیان کوئی رشتہ ہی نہیں ہے)۔
📚اصول کافی ج2 باب حق المومن علی اخیه ح 10۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شخص امام صادق (ع) کی خدمت میں آیا اور اس نے استخارہ دکھایا، استخارہ برا آیا مگراس نے اسے نظرانداز کردیا اور تجارتی سفر کے لیے نکل پڑا۔ اتفاق سے اس سفر میں اسے کافی منافع ملا۔ جب وہ سفر سے لوٹا تو امام کی خدمت میں آیا اور کہا: آپ کو یاد ہے آپ نے میرے لیے ایک استخارہ دیکھا تھا جو برا آیا تھا؟ مگر میں نے اسے نظرانداز کردیا اور مجھے بہت فائدہ ہوا۔ حضرت نے فرمایا: تمہیں یاد ہے جب تم فلاں گھر میں تھکے ہوئے تھے اور نماز مغرب و عشا پڑھنے کے بعد کھانا کھاکر سوگئے تھے اور جب آنکھ کھلی تو سورج نکل آیا تھا اور تمہاری نماز صبح قضا ہوگئی تھی؟ کہا: ہاں یابن رسول اللہ۔ فرمایا: اگر خدا دنیا اور اس میں موجود تمام چیزوں کو تمہیں دیدے تب بھی اس معنوی نقصان کی بھرپائی نہیں ہوسکتی۔
داستانها و حکایتهای نماز، مصنف: رحیم کارگر محمدیاری، جهاد با نفس/ج۱/ص۶۶۔

منبع: روضہ منوره حضرت امام علی رضاؑ کی ویب سائٹ