• صارفین کی تعداد :
  • 1419
  • 1/25/2018 4:11:00 PM
  • تاريخ :

إنتظار اور هماری ذمہ داریاں

جن قرآنی آیات اور روایات میں مسئله انتظار کے متعلق گفتگو هوئی هے ان سے بخوبی یه واضح هوتا هے که عصر غیبت میں منتظر ین کے گردن پر بهت هی سنگین اور بڑی ذ مہ داری هے

 
إنتظار اور هماری ذمہ داریاں


جن قرآنی آیات اور روایات میں مسئله انتظار کے متعلق گفتگو هوئی هے ان سے بخوبی یه واضح هوتا هے که عصر غیبت میں منتظر ین کے گردن پر بهت هی سنگین اور بڑی ذ مہ داری هے

اور جب تک ان ذمہ داریوں اور وظائف پر عمل نه کریں حقیقی اور سچے منتظرین میں شمار نهیں هوتا۔

لهذا واقعی اور سچے منتظر بنے کے لیۓ ان ذمہ داریوں کو اچھی طرح جاننا اور اس پر عمل پیرا هونا ضروری هے
هم یهاں چند اهم ذمہ داریوں کو تحریر کرتے ہیں تاکه تشنئه معرفت حضرات کے لیےان وظائف اور ذمہ داریوں کو جاننے میں آسانی هو ۔

۱۔ إمام منتظر کی معرفت اور شناخت :


ایک مؤمن منتظر کی سب اهم ذمہ داری اور پھلا وظیفه هر دور کے امام کی معرفت اور شناخت هے ،اور فریقین کے روایات کے مطابق پیغمبر اکرم(ص) نے امام زمانه(عج) کی معرفت کا حکم دیا هے اور فرمایا هے: "من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية"(۱) جو شخص اپنے امام زمانه كي معرفت كے بغير مر جاۓ وه جاهليت كي موت مراهے۔
اسلامی تعلیمات کے روشنی میں- جسکا تذکره پهلے بھی هو چکا هے- تمام مسلمانوں کا یه عقیده هے که جس هستی کے آمد کے هم سب منتظر هیں وه ایسی شخصیت هے جن کو پروردگار عالم نے اسی دن کے لیے ذخیره کیا هے ، اس روۓ زمین پر امام زمانه اور حجت خدا هونگے اور انکے بابرکت وجود کے ذریعے مقصد بعثت کامل اورخلقت کا نتیجه حاصل هو گا –لیکن خصوصیت کے ساتھ مکتب تشیّیع کے نزدیک وه ذات ابھی بھی همارے درمیان زندگی کر رهے هیں اگر چه انکی شخصیت کی زیارت سے هم سب محروم هیں ، آپ پرده غیب سے هماری مسلسل سرپرستی کررهے هیں ،انھیں کے وسیله سے اﷲ تعالی لوگوں کو رزق فراهم کرتا هے اور زمین وآسمان اپنی جگه ثابت وبرقرار هیں – آپ خدا اور مخلوق کے درمیا ن واسطه فیض هیں تمام انبیاء واوصیاء کے علوم اور اوصاف حمیده کے وارث هیں اورآپ هی کی ذات کو اﷲ تعالی کی إراده و إجازت سے نفوس پر تصرف کرنے کا حق حاصل هے اور حق وحقیقت کی طرف هدایت کرتی هے۔

اگر آج مسلم سوسائٹی معیشتی و اجتماعی اور ثقافتی لحاظ سے اضطراب وتنزّل اور حفقان کا شکار هے ،تو یه سب آنحضرت سے غفلت و بے توجهی اور انکی معرفت حاصل کرنے میں کوتاهی کے وجه سے هے ،اور فطری طور پر جب انسان کسی موضوع کو کما حقه نه پهچانتا هو تو اسکے بارے میں وه اپنے وظیفه کو دلی لگاو سے انجام نهیں دے سکتا لھذا ایک حقیقی منتظر کی ظهور سے پهلے سب سے بڑی اور اهم ذمہ داری حضرت حجت اما م منتظر(عج) کی معرفت اور شناخت هے اوریهی سعادت و نجات کا باعث اور اسے دوری دنیوی نقصان اور خسران ابدی کا باعث هے لهذا صادق ال محمد(ص) فرماتے هیں :" يَقُولُ اعْرِفِ الْعَلَامَةَ فَإِذَا عَرَفْتَهُ لَمْ يَضُرَّكَ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ فَمَنْ عَرَفَ إِمَامَهُ كَانَ كَمَنْ كَانَ فِي فُسْطَاطِ الْمُنْتَظَرِ "(۲) تم اپنے امام کو پهچانیں جسکے تم منتظر هے کیونکه جب تم پهچانیں گے تو پھر وه ظھور کرے یا نه کرے تمھیں کچھ نقصان نهیں هو گا ۔یعنی تم نے اپنے ذمہ داری انجام دیا اور حقیقی منتظرین میں سے هو گۓ اب انکے ظهور سے پهلے اگر تم اس دنیا سے چلے گئے تو یهی معرفت تمھاری نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان که وه ظهور کرے یا نه کرے ، لیکن یه اسکے لیۓ نقصان هے جو اپنے امام کی معرفت نه رکھتا هے -

اسی طرح فضیل بن یسار نے امام محمد باقر(ع) سے روایت کی هے: "يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِيتَتُهُ مِيتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِي فُسْطَاطهِ"(۳)آپ فرما تے هیں جو شخص اس حالت میں مرےجبکه وه اپنے امام کو نهیں پهچانتا هو تو وه جاهلیت کی موت مرا هے ،اور وه شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکه وه اپنے امام زمانه(عج) کی صحیح معرفت رکھتا هو تو امام زمانه کے ظهور ميں تاخير اسے نقصان نهیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکه اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ے تو گویا و ه اپنے امام کے همراه جهاد میں انکے خیمے میں هے -

اسی طرح ایک حدیث میں جناب شیخ صدوق(رہ) نقل فرماتے هیں :" ولا يکون الإيمان صحيحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من يؤمن به"، كما قال اللّه تبارك وتعالي "إلاّ من شهد بالحق وهم يعلمون"(۴) فلم يوجب لهم صحة ما يشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ينفع ايمان من آمن بالمهدي القآئم عليه السلام حتي يكون عارفاً بشأنه فى حال غيبته"(۵) كسي مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نهیں هوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا هے اس کے بارے میں پوری شناخت نهیں رکھتا هو۔ جس طرح اﷲ تعالی فرماتا هے " إلاّ من شهد بالحق وھم یعلمون " مگر ان افراد کے جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواهی دیں ۔ پس حق پر گواهی دینے والوں کی گواهی قبول نهیں هو گی مگر علم رکھتا هو ۔ اسی طرح مهدی قائم(عج) پر ایمان رکھنے والوں کے ایمان انھیں فائده نهیں دے گا (یعنی انکے ظهور اور قیام پر إجمالی ایمان اور انکے ظهور کے انتظار اسے فائده نهیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران انکے متعلق اور انکے شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا هو۔

حوالہ جات:
۱۔ شرح مقاصد، ج ۲ ،ص ۲۷۵-
۲۔ مرآۃ العقول ،ج۴ ،ص ۱۸۶؛ اصول الکافی،ج۱ ،ص۳۷۲ -
۳۔ کلینی، اصول الکافی:ج۱ ،ص۳۷۲۔
۴۔ سورہ زخرف ،آیت۸۶ -
۵۔ صدوق :كمال الدين اتمام النعمة ،ج ۱ ،ص ۱۹ -

منبع: اشرق