• صارفین کی تعداد :
  • 316
  • 11/9/2017
  • تاريخ :

کریمہِ اھلبیتؑ کی بارگاہ میں

قم والوں میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی طرف بلائے گا، ایک گروہ اس کی آواز پر لبیک کہے گا۔ اس کے پاس جمع ہوجائیں گے جو کہ فولاد کی مانند ہوں گے انہیں کوئی متزلزل نہیں کرسکے گا۔ وہ جنگ سے نہیں اکتائیں گے۔ وہ صرف خدا پر توکل کریں گے، آخر کار متقیین کامیاب ہوں گے۔

کریمہِ اھلبیتؑ کی بارگاہ میں


قم کا ریلوے اسٹیشن حرمِ حضرتِ معصومہؑ سے تقریبا ۴ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ لہٰذا ہم جلد ہی حرم کے سامنے پلِ آھنچی کے قریب واقع اپنی منزل یعنی ہوٹل اردھال پہنچ گئے۔

ہوٹل پہنچ کرسب نے مل کر سامان بس سے نکالا اور ہوٹل کی لابی میں رکھا۔ کمروں کی تقسیم کا مرحلہ طے ہوا۔ اس بار حقیر کے ساتھ مختار بھائی اور اصغر شاہ جی تھے۔

منتظمِ کاروان نے ٹرین ہی میں قم فون کر کے اپنے کسی دوست سے ناشتے کے بندوبست کا کہہ دیا تھا، لہٰذا ہمارے وہاں پہنچتے ہی ناشتہ بھی پہنچ گیا تھا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر اپنے کشادہ اور آرام دہ کمرے میں سامان رکھا۔ کچھ دیر آرام اور غسل کرکے حرم کی جانب روانہ ہوئے۔ ہوٹل سے نکل کر سامنے پلِ آھنچی سے ہوتے ہوئے کریمہِ اھلبیتؑ کے حرم میں داخل ہوگئے۔

کریمہِ اھلبیتؑ کی بارگاہ میں

سامنے ہی مسجدِ اعظم تھی۔ مسجدِ اعظم آیت ا۔۔۔۔۔۔ بروجردی ؒ کے کارناموں میں سے ایک ہے۔ پہلے اس مسجد کی جگہ لوگوں کے ذاتی گھر اور مسافر خانے بنے ہوئے تھے جو حرمِ بی بی معصومہ ؑ سے متصل ہونے کی وجہ سے نا موزوں تھے۔ اور حرم میں بڑے اجتماعات کیلئے کوئی جگہ بھی نہ تھی، سو آیت ا۔۔۔۔۔۔۔ بروجردی نے لوگوں کے گھر اور مسافرخانے خرید کر امام ِ رضا ؑ کی ولادت کے روز ۱۳۷۳ ھجری میں اس عظیم مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا جو ایک سال کے اندر مکمل ہوئی۔
حضرت معصومہ (س) پہلی ذیقعدہ سنہ ۱۷۳ھ۔ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ جناب نجمہ خاتون ہیں جب امام رضا(ع) پیدا ہوئے تو ان کی والدہ کو طاھرہ کے نام سے بلایا گیا۔ پہلی ذیقعدہ کا دن امام رضا(ع) کیلئے بہت بڑا دن تھا اور اس دن بڑی انتظار کا خاتمہ ہوا اس لئے کہ جناب نجمہ خاتون کے ایک ہی فرزند جناب امام رضا(ع) تھے اور وہ پھر بہت عرصے تک صاحب اولاد نہ ہوئیں اس لئے جناب امام رضا(ع) کی ولادت سنہ ۱۴۸ھ۔ کے بعد جناب معصومہ(س) ۱۷۳ ھ میں پیدا ہوئیں یعنی ۲۵سال کے فاصلے کہ بعد۔ نیز امام موسی کاظم(ع) کی اولاد میں سے کوئی بھی ہم مرتبہِ امام رضا(ع) نہیں تھا تا کہ امام(ع) برادرانہ محبت کا واضح اظہار کرسکیں لہذا جب حضرت معصومہ(س) پیدا ہوئیں تو امام رضا (ع) کو ایک بڑی عظمتوں والی بہن مل گئی۔ دنیا میں بہت سے ایسے بہن بھائی ہیں جو ایک دوسرے کو جان سے زیادہ دوست رکھتے تھے۔ سب سے بڑا نمونہ جناب زینب(س) اور امام حسین(ع) اور اس کے بعد جناب معصومہ(س) اور امام رضا (ع) کا ہے۔

جب مامون نےامام رضا(ع) کو مدینے سے بلایا تو حضرت معصومہ(س) نے ایک سال تک اپنے بھائی کی دوری برداشت کی لیکن ایک سال کے بعد تابِ تحمل نہ رہا اور اپنے بھائی کے دیدار کیلئے مدینہ طیبہ کو ترک کیا اور مرو کی طرف روانہ ہوئیں اس سفر میں حضرت معصومہ کے پانچ بھائی ” فضل، جعفر، ہادی، قاسم اور زید اور کچھ بھتیجے اور چند غلام اور کنیزیں ان کے ہمراہ تھے۔ جب حضرت معصومہ(س) ساوہ کے مقام پرجو کہ قم سے تقریبا ۸۰ کلومیٹر کی دوری پر ہے پہونچیں تو اہل بیت رسول اکرم(ص) کے دشمن مامون کے حکم سے ان کے راستے پر کھڑے ہو گئے اور بہیمانہ حملہ کر کے اس کاروان کے اکثر مردوں کو شہید کردیا۔ حضرتِ معصومہؑ کے ۲۳ بھائی بھتیجے اس حملے میں شہید ہوگئے۔

حضرت معصومہ(س) شدت غم اور بعض روایات میں ہے کہ مسمومیت یعنی زہر دیے جانے کی بنا پر بیمار ہوگئیں اور ان میں تاب سفر نہ رہا۔

۲۳ربیع الاول سنہ ۲۰۱ھ۔ میں جناب معصومہ(س) قم میں وارد ہوئیں اور شہر قم کے سب مرد اور عورتیں ، بچے اور بوڑھے ان کے والہانہ استقبال کیلئے جمع ہوئے۔ حضرت معصومہ (س) کی سواری موسیٰ بن خزرج کے دروازے پر رک گئی اورموسیٰ بن خزرج کو یہ توفیق نصیب ہوئی کہ وہ ۱۷ دن تک جناب معصومہ (س) کے میزبان رہے۔ اس جگہ کو میدانِ میر کہا جاتا ہے۔ موسیٰ بن خزرج کے گھر کو آپؑ کے احترام میں مدرسہ بنادیا گیا جو کہ مدرسہِ سیدہؑ کے نام سے موسوم ہوا۔ مدرسے کے داخل ہونے والے دروازے کے پاس ہی آپ ؑ کی محرابِ عبادت ہے جہاں آپ اس سترہ روزہ قیام میں مصروفِ عبادت رہا کرتی تھیں۔ اس جگہ کو آج بیت النور کہا جاتا ہے۔ گزشتہ سفر میں بیت النور کی زیارت کا بھی شرف حاصل ہوا تھا۔ حضرتِ معصومہؑ نے غم اور بیماری کی حالت میں ۱۷ روز تک عبادت کی اور ۱۰ ربیع الثانی ۲۰۱ ھ میں بھائی امامِ رضاؑ کی ملاقات سے آنکھوں کو ٹھنڈا کئے بغیر شہید ہوگئیں۔

عالی قدر آقائے سید محمود مرعشی نجفیؒ حضرت صدیقہ طاہرہ ؑ کی قبر کا سراغ لگانے کے سلسلے میں بہت کوشاں تھے۔ اس مقصد میں کامیابی کیلئے انہوں نے چالیس راتوں کا چلہ کیا۔ چالیسویں شب میں وظیفہ ختم کرنے اور بے پناہ دعا مانگنے کے بعد جب سوگئےتو امام محمد باقرؑ اور امام جعفرِ صادقؑ کو خواب میں دیکھا۔ امام ؑ نے فرمایا،، تم کریمہِ اھلبیتؑ سے توسل کرو،،، انہوں نے یہ سوچ کر کہ امام کی کریمہِ اھلبیتؑ سے مراد حضرت زھرا(س) ہیں،، عرض کی کہ یہ چلہ ان ؑ ہی کی قبرِ مبارک کا پتہ چلانے کیلئے کیا ہے۔ تاکہ قبر کا صحیح نشان معلوم ہوجائے، جس سے میں زیارتِ قبر سے مشرف ہوسکوں۔ امامؑ نے فرمایا، میری مراد قم میں حضرت معصومہؑ کی قبر ہے۔ اس کے بعد کہا کہ خداوندِ عالم نے مصلحت کی بنا پر حضرتِ زھرا(س) کی قبر کو مخفی رکھا ہے اور اس کی جلوہ گاہ حضرتِ معصومہ ؑ کی قبر کو قرار دیا ہے۔ـ

چنانچہ آقائے مرعشی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہی ہم لوگ نجف سے قم منتقل ہوگئے تھے۔

(حوالہ: حضرتِ معصومہ اور شہرِ مقدس۔ انصاریان ص ۳۴)

آپؑ کے روضہِ مبارک میں ان گنت معجزات رونما ہوچکے ہیں، باوجود خواہش کے بہ سببِ طول انہیں نقل کرنے سے گریز کررہا ہوں۔

۱۳۴۰ھجری میں آیت ا۔۔۔۔ عبدالکریم حائری نے حوزہ علمیہ قم کی بنیاد رکھی جس سے اس مقدس شہر کی شہرت و عظمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ آیت ا۔۔۔۔۔۔ حائری کی وفات کے بعد آیت ا۔۔۔۔ بروجردی نے قم کے حوزہ کے فروغ میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اور یہ شہر مقدس علماء تشیع کا مرکز بن کر ابھرا۔ آیت ا۔۔۔۔ بروجردی کے بعد حوزہ علمیہ قم کے علماء و طلباء نے مدرسہِ فیضیہ سے امام خمینی ؒ کی قیادت میں شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔

۱۹۶۳ اپریل میں شاہ کی فوج نے حرمِ بی بی معصومہؑ سے متصل مدرسہ ِ فیضیہ پر یلغار کردی تھی اور بہت سے طلباء کو خاک و خون میں نہلا دیا تھا۔ مدرسہِ فیضیہ پر شاہ کی فوج کے اس سفاکانہ حملہ کا اصل مقصد یہ تھا کہ قم سے طلبا کو فرار کرنے پر مجبور کردیا جائے تاکہ وہاں سے کوئی تحریک نہ چلائی جاسکے۔ لیکن اس حوزہ علمیہ نے ایسے ہی استبدادی زمانے کیلئے طلباء میں حق شناسی، حق گوئی اور مبارزے کا جوہر پیدا کیا تھا۔

امیرالمومنین ؑ کا ارشاد ہے کہ

؛؛؛ قم والوں میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی طرف بلائے گا، ایک گروہ اس کی آواز پر لبیک کہے گا۔ اس کے پاس جمع ہوجائیں گے جو کہ فولاد کی مانند ہوں گے انہیں کوئی متزلزل نہیں کرسکے گا۔ وہ جنگ سے نہیں اکتائیں گے۔ وہ صرف خدا پر توکل کریں گے، آخر کار متقیین کامیاب ہوں گے۔۔؛؛؛

(بحار الانوار ج ۶۰، ص ۲۱۶)

بقول امام خمینیؒ، قم حرمِ اھلِ بیتؑ ہے۔ قم مرکزِ علم ہے۔ قم شہادت و شہامت کا مرکز ہے۔

امام خمینی ؒ نے ۱۳ خرداد (ایرانی مہینہ) بمطابق ۳ جون ۱۹۶۳ کے عصرِ عاشورہ کے وقت مدرسہ فیضیہ میں ایک تاریخی خطاب کیا تھا جو ۱۵ خرداد بمطابق ۵ جون کی تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ خمینیؒ بت شکن کے اس تاریخی خطاب کے بعد ۱۴ خرداد ۴ جون ۱۹۶۳ کو امام خمینیؒ کے ساتھیوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور ۱۵ خرداد ۵ جون کو آدھی رات کے وقت امام خمینیؒ کو نمازِ تہجد کی حالت میں گرفتار کر کے تہران لیجایا گیا اور قصر جیل میں قید کردیا گیا۔ امامؒ کی گرفتاری کی خبر سن کر عوام کا سمندر سڑکوں پر آنکلا تھا اور خمینی یا موت کے فلک شگاف نعرے لگارہے تھے۔ شاہ نے تہران سے فوجی دستے بھیج دیے جنہوں نے مشین گنوں کا رخ امام خمینیؒ کے چاہنے والوں کے سینوں کی طرف کردیے۔ ہر طرف خون کی ندیاں بہنے لگیں، اور قم شہر کی گلیاں لاشوں اور زخمیوں سے بھر گئی تھیں۔

حرمِ بی بی معصومہ ؑ میں متعدد مخدوراتِ اھلبیتؑ مدفون ہیں جیسے بی بی میمونہ دختر موسی مبرقع اور بی بی امَ محمد دخترِ موسیٰ مبرقع وغیرہ۔ یہ دونوں مخدورات امامِ جوادؑ کی پوتیاں بھی ہیں۔

حضرت موسی مبرقعؒ فرزندِ بلافصلِ امام محمد تقی ؑ ہیں اور امام علی نقیؑ کے حقیقی بھائی ہیں۔ یہ قم میں اپنے ہی گھر میں جو کہ خیابانِ طالقانی (آذر) پر ہے، مقبرہِ چہل اختران کے قریب دفن ہوئے ہیں۔ رضوی سادات کا سلسلہ ان ہی کی نسل سے ہے۔ حقیر کو یاد ہے کہ گزشتہ سفر میں معروف نوحہ خواں شجاع رضوی بھی ہمارے کاروان کے ہمراہ تھے۔ اور جب ہم اس مقام پر پہنچے اور مولانا صاحب نے بتایا کہ رضوی سادات انھی امام زادے موسی مبرقعؒ کی نسل سے ہیں، تو برادر شجاع رضوی نے با آوازِ بلند صلوات پڑھائی تھی۔ حضرت موسیٰ مبرقع کےساتھ حضرت احمد بن محمد بن موسیٰ کی قبر بھی ہے۔

روضہ موسیٰ مبرقعؒ کے ساتھ ہی چہل اختران نامی ایک مزار ہے۔ جس میں امام زادوں اور انکے اہلِ خانہ کی قبور ہیں۔ یہاں سب سے پہلے موسیٰ مبرقعؒ کے فرذند محمد دفن ہوئے، پھر ان کی اہلیہ بریہہ بنت جعفر بن امام علی نقیؑ، ان کے علاوہ ابوجعفر موسیٰ بن علی بن امام موسیٰ کاظم ؑ، زوجہِ موسیٰ بن محمد، محمد بن موسیٰ بن محمد بن امام علی رضاؑ، ، جنابِ زینب بنت موسیٰ مبرقع، اس کے علاوہ ائمہ ؑ کی اولادوں میں سے دیگر افراد یہاں دفن ہوتے رہے یہاں تک کہ تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔

حرمِ مقدسِ حضرتِ معصومہؑ میں متعدد جلیل القدر علماء و آیت اللہ عظام کی آرام گاہیں ہیں۔ جن میں آیت اللہ بروجردی، آیت اللہ شیخ عبدلکریم حائری، آیت اللہ منتظری، آیت اللہ خوانساری، آیت اللہ محمد علی اراکی، علامہ طباطبائی، آیت اللہ سید صدرالدین صدر، آیت اللہ سید رضا بہاءالدینی، آیت اللہ فاضل لنکرانی، آیت اللہ محمد تقی بہجت، آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری وغیرہ ، سرِ دست صرف شہید مطہری کی بابت چند جملے لکھتا چلوں۔

شہید آیت اللہ مرتضٰی مطہریؒ کا انقلابِ اسلامی ایران پر بہت بڑا حق ہے اور اس انقلاب کی کامیابی میں ان کی عظیم کاوشوں کا بہت عمل دخل ہے۔ صدق و صفا کا یہ پتلا اور خلوصِ نیت کا مجسمہ یہ عظیم دانشور، اپنی زندگی کی پوری مدت قافلہ سالار ِ علماء و فضلائے عصر رہا اور ایران کی یونیورسٹیز اور حوزہ ِ علمیہ کو اپنے نورِہدایت و بصیرت سے روشن کرتا رہا۔

شہید مطہری نے اپنی بصیرت افروز تقریروں سے ایرانی معاشرے کے پیکرِ اخلاق و عمل میں تازہ روح پھونکی اور تعلیماتِ اسلامی سے برگزشتہ اور سرکش نوجوان نسل کی دین کی طرف رہنمائی کی۔ جن کی شہادت ۲۹ مئی، ۱۹۷۹ پر امام خمینیؒ نے ان الفاظ میں پیغام دیا۔

‘میں اسلام، علمائے اسلام، امت مسلمہ اور بالخصوص ایران کی مجاہد ملت کی خدمت میں فقیہ عالی مقام، فلسفی و مفکر اور حکیمِ اسلام جناب مرتضٰی مطہری کی اندوہناک شہادت پر دلی تعزیت عرض کرتا ہوں۔ یہ تعزیت میں اُس عظیم شخص کی شہادت پر پیش کررہا ہوں جو دینِ اسلام اور اس کے مختلف علوم میں مہارت اور قرآنِ حکیم کی حقیقت کی بصیرت و معرفت میں اپنی مثال آپ تھا۔ میں اپنے عزیز ترین فرزند کے لئے سوگ نشین ہوں جو میری عمر کا حاصل تھا۔ مطہری مرحوم روح کی طہارت و پاکیزگی، قوتِ ایمان اور شوکتِ بیان میں اپنی نظیر آپ تھے۔

رہبرِ معظم، شہید مطہری کے بارے میں ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں

شہید مطہریؒ ایک جامع شخصیت تھے۔ آپ سیاسی بھی تھے، نظریاتی بھی، عارف بھی تھے، اہلِ دعا بھی اور اہلِ تہجد بھی۔ آپ ہر وقت خدا کی یاد میں دعا اور گریہ کے ساتھ رہتے تھے۔ مرحوم مطہریؒ ایک ایسے انسان تھے جو تصور میں نہیں آسکتے، یعنی آپؒ مسائل کا جس منطقی انداز میں سامنا کرتے تھے تو اسی قدر باطنی اعتبار سے بے حد ملائم اور لطیف بھی تھے۔

شہید مطہری کو فرقان نامی دھشت گرد گروپ نے جسے استعمار اور اس کے سفارت خانوں کی پشت پناہی حاصل تھی، ۲ مئی ۱۹۷۹ میں شہید کردیا تھا۔

اس گروپ نے نومبر ۱۹۷۹ میں آیت اللہ قاضی طباطبائی، دسمبر ۱۹۷۹ میں آیت اللہ ڈاکٹر محمد مفتح کو شہید کیا۔ اس کے علاوہ اگست ۱۹۷۹ میں حاج مہدی عراقی(شہید نواب صفوی کے ساتھی) کو ان کے بیٹے سمیت شہید کیا اور اپریل ۱۹۷۹ میں ایران کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل قرنی کو شہید کیا تھا۔

شبِ بدھ ہم مسجدِ جمکران جانے کیلئے ہوٹل کے کمرے سے نیچے آئے، ہم تھوڑا لیٹ ہوگئے تھے پتہ چلا کہ کاروان کی بس جاچکی ہے آپ لوگ اپنے طور پر پہنچیں، مغرب کی ازان کا وقت قریب تھا لٰہٰذا حقیر، مختار بھائی، ھادی و اصغر شاہ جی پہلے حرمِ بی بی معصومہؑ گئے وہاں نمازِ مغربین ادا کی پھر وہاں سے آیت ا۔۔۔۔۔۔ مرعشی نجفی کے کتب خانہ والی سڑک پر آئے یہاں پر صادرات صدرا۔۔۔۔ نامی ادارے کا دفتر ہے۔ یہ ادارہ فقط آیت ا۔۔۔۔۔۔ شہید مرتضیٰ مطہری کی کتابوں کووسیع پیمانے پر چھاپتا ہے۔ دفتر ہی میں متعدد شیلف میں شہید مطہری کی کتب قرینے سے سجی ہیں۔ بہت سی وہ کتب بھی دیکھیں جن کا ابھی اردو زبان میں ترجمہ بھی نہیں ہوا ہے۔ یہاں سے برادر ھادی کو کچھ کتابیں خریدنی تھیں۔ یہاں سے فارغ ہوکر ایک اسلامک سی ڈی کی فروشگاہ گئے۔ پھر سڑک سے ٹیکسی لی اور مسجدِ جمکران کی جانب روانہ ہوگئے۔ مسجدِ جمکران، حرمِ بی بی معصومہؑ سے تقریبا ۹ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔

مسجدِ جمکران کے صحن میں مومنین نے قہوے کی سبیل لگائی ہوئی تھی، اور اس سبیل پر بڑا انوکھا انتظام تھا جس سے وقت اور افرادی قوت دونوں کی بچت ہو رہی تھی۔ بجائے یہ کہ دیگر روایتی سبیلوں کی طرح چائے کے دیگ سے کیتلی یا جگ میں بھر بھر کر لانے اور گلاسوں میں بھرنے کی بجائے، ایک آدمی سبیل کے کائونٹر کے پیچھے کرسی پر بیٹھا تھا، سبیل کے ساتھ والی ایک جگہ پر ٹینٹ کے پیچھے چائے تیار ہورہی تھی، وہاں سے سبیل کے اس کائونٹر تک پائپ لائن نصب تھی، چائے کی سپلائی پائپ لائن کے زریعے کائونٹر تک پہنچ رہی تھی، پائپ کے سرے پر یونینز لگا کر متعدد نلکے لگا دیے گئے تھے، اور وہ ایک آدمی بیٹھے بیٹھے بیک وقت کئی گلاسوں میں چائے بھر سکتا تھا۔ درست کہا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ مسجدِ جمکران میں مخصوصی کی شب چونکہ رش بہت ہوتا ہے اس لئے سبیل کے کائونٹر پر چائے کی بلا تعطل سپلائی کی خاطر شاید یہ انتظام کیا تھا۔ ظاہر ہے اس انوکھے انتظام کو دیکھ کر اصغر شاہ تصویر لینے سے چوکنے والے تو تھے نہیں، سو اس سبیل کی بھی کئی تصاویر لے ڈالیں۔

پھر ہم مسجدِ جمکران کی نورانی فضا میں داخل ہوئے۔ مسجد کے صحن میں خدام سے آج کی شب کے پروگرام کا دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ ۸:۳۰ بجے دعائے توسل اور دیگر دعائیں و نوحہ خوانی کا پروگرام شروع ہوگا جو ۱۰:۳۰ بجے تک جاری رہے گا ۔ سو ہم مناسب وقت پر پہنچ چکے تھے۔ ابھی پروگرام میں کافی وقت تھا۔ مسجد میں اعمال و نمازوں سے فارغ ہوکر ہال میں آئے، یہاں اسٹیج پر ایک عالمِ دین تشریف فرما تھے اور کوئی ٹاک شو ٹائپ کا پروگرام ہورہا تھا، اور میزبان، غیبتِ امامِ زمانہؑ میں ہماری زمہ داریوں کے عنوان سے مختلف سوالات عالمِ دین سے پوچھتے تھے اور عالمِ دین بہت ہی مدلل جوابات دے رہے تھے۔ اس پروگرام کے بعد دعائے توسل شروع ہوئی، اگر حقیر کی یادداشت ساتھ دے رہی ہے تو غالبا صادق آھنگران تھے جو اپنی پر سوز آواز میں دعائے توسل پڑھ رہے تھے۔ آپ بھی ایران کے مشہور قاری و پر سوز نوحہ خواں ہیں۔ وسیع و عریض ہال مرد و خواتین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، گریہ و زاری کی صدائیں بلند تھیں، دعائوں کے بعد نوحہ خوانی ہوئی، پروگرام کے اختتام پر کچھ دیر تک ہم ہال ہی میں بیٹھے رہے اور تقریبا ۱۲:۰۰ بجے کے قریب واپس ہوٹل کیلئے روانہ ہوئے۔ حقیر کو ہوٹل پہنچ کر وہاں سے اصفہان کیلئے روانہ ہونا تھا۔

ہال سے باہر آئے تو ایک خوشگوار واقعہ پیش آیا۔ برادر ہادی کے پاس اچانک ایک ایرانی عالمِ دین آئے اور ایک جگہ کی جانب اشارہ کر کے کہا کہ وہاں سے تبرک لے لیجئے۔ اور یہ کہہ کر وہ عالمِ دین چلے گئے۔ مختار بھائی اور اصغر شاہ جی کو وہیں بٹھا کر حقیر اور برادر ہادی، ان عالمِ دین کی بتائی گئی جگہ پر پہنچے، جو مسجدِ جمکران ہی کی عمارت کی دوسری منزل پر تھی۔ یہاں ایک دفتر میں بیٹھے شخص نے بہت خوش اخلاقی سے ہمارا استقبال کیا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم پاکستانی زائرین ہیں۔ انہوں نے کاروان کا نام اور کاروان کے لوگوں کی تعداد دریافت کی۔ اس کے بعد ہمیں چالیس عدد مسجدِ جمکران کی تسبیحیں اور کافی سارے نمک کے پیکٹ جن پر متبرکِ مقدسِ مسجدِ جمکران چھپا ہوا تھا۔ بطورِ تبرک پیش کیے جو ہم نے بصد شکریہ وصول کیے۔ جاتے جاتے انہوں نے اپنے حصے کا کھانا بھی ہمیں دینا چاہا۔ ان کے سامنے میز پر تین ڈنر باکس رکھے تھے اور وہ ہمیں تینوں باکس دے رہے تھے، ہم نے بہت انکار کیا مگر وہ مصر تھے کہ ہم اسے قبول کریں، آخر ان کی محبت و خلوص اور بیحد اصرار پر ہم نے ان سے ایک ڈنر باکس قبول کرلیا۔ ان سے معانقہ کر کے ہم نیچے آئے اور مختار بھائی و اصغر شاہ جی کو یہ ماجرا بیان کیا۔ باہر آکر ایک ویگن میں سوار ہوئے اور اپنے ہوٹل کی راہ لی۔

قم میں ہمارا قیام بہت مختصر تھا۔ دو روزہ اس قیام میں ایک دن حقیر کو اصفہان اور بقیہ کاروان کو تہران جانا تھا۔ یعنی ہمارا قم میں قیام دو راتوں اور ایک دن کا تھا۔ سو حقیر نے ارادہ کیا کہ نصفِ شب اصفہان کیلئے روانہ ہوں تا کہ صبح سویرے اصفہان پہنچ جائوں اور مغربین تک واپس قم آجائوں۔ ہوٹل پہنچ کر اصفہان جانے کی تیاری کی۔ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے بہت خستگی محسوس ہورہی تھی، تقریبا ۱۲:۳۰ بجے کچھ دیر سونے کیلئے لیٹ گیا اور اصغر شاہ جی کا ذمہ لگایا کہ ۱:۳۰ بجے تک مجھے اٹھا دے۔ اصغر شاہ ایک گھنٹہ اپنے موبائل فون پرسفر کی تصاویر کی سیٹنگ کرتے رہے اور ٹھیک ۱:۳۰ بجے مجھے جگا دیا۔ مختار بھائی اور ھادی سو رہے تھے، اصغر شاہ جی بھی مجھے جگانے کی ڈیوٹی انجام دے کر سو گئے اور حقیر ۲ بجے ہوٹل سے باہر آگیا۔ پلِ آھنچی سے ٹیکسی لیکر ٹرمینال پہنچا۔ وہاں سے اصفہان کی ٹیکسی میں بیٹھ کر روانہ ہوا۔

قم سے کچھ آگے ہی بڑھے تھے کہ راستے کے دونوں جانب متعدد بڑے بڑے شوروم نظر آئے جن پر سوہان و گز وغیرہ لکھا ہوا تھا، معلوم ہوا کہ یہ گز اور سوہان کے ہول سیل ڈیلرز کے شوروم ہیں۔ غالبا قم والے یہیں سے سوہان اور گز وغیرہ خریدتے ہونگے۔ ٹیکسی میں ڈرائیور اور حقیر دو ہی افراد تھے۔ٹیکسی والا دلچسپ آدمی تھا اور بہت باتونی تھا۔ کچھ دیر تو اس سے باتیں کرتا رہا مگر نیند کا غلبہ شدید تھا، لہٰذا سیٹ سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کرلیں اور کچھ ہی دیر میں نیند کی آغوش میں تھا۔ کچھ ہی لمحے گزرے ہونگے کہ ٹیکسی ڈرائیور کی زور دار آواز گونجی۔۔۔ آقائے پاکستانی! تو خوابیدی؟ یعنی آقا پاکستانی، تم سو گئے کیا؟ حقیر ہڑبڑا کر اٹھ گیا ۔۔۔ اس سے کہا بھائی میں دو راتوں سے سویا نہیں ہوں اس لئے نیند بہت آرہی ہے۔ اس نے جواب میں کہا تو دو شب نہ خوابیدی من سہہ شب نخوابیدم۔۔۔۔۔ (تم دو رات نہیں سوئے ہو میں تین راتوں سے نہیں سویا ہوں) مجھے کون جگا کے رکھے گا۔ دریافت کیا بھائی کیوں نہیں سوئے تین راتوں سے؟ کہنے لگا پرسوں تہران میں تھا پھر تبریز گیا اب اصفہان جارہا ہوں اور آج تیسری شب ہے میں نے نیند نہیں کی ہے۔ حقیر کو خدشہ بھی ہوا کہ اگر میں سوگیا اور اسے بھی نیند کا جھٹکا آگیا تو پھر خدانخواستہ ہم دونوں ابدی نیند ہی نہ سوجائیں۔ حقیر نے آنکھیں سڑک پر جما کر یا آس پاس کے پہاڑوں پر نظر دوڑاتے ہوئے جاگتے رہنے کی بھرپور کوشش کی، ساتھ ہی ڈرائیور کو جگائے رکھنے کیلئے باتیں بھی کر رہا تھا، زیادہ تر باتیں ایران کی سیاست سے متعلق تھیں۔ کچھ دیر بعد ایک بار پھر نیند کے غلبے کے زیرِ اثر آکر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگیا۔ ابھی سوئے ہوئے کچھ منٹ ہی ہوئے تھے کہ ڈرائیور پھر چیخا آقائے پاکستانی! خوابیدی۔۔۔۔۔

اور اس کی آواز نے پھر بیدار کردیا۔ ڈرائیور نے ایک سڑک کنارے بنے ہوٹل پر گاڑی روکی وہاں سے اپنا چائے کا فلاسک بھرا، پلاسٹک کپ لئے، قند کا ڈبہ گاڑی میں ہی بھرا ہوا موجود تھا۔ دونوں نے چائے پی اور پھر سفر شروع ہوا۔ ہر تھوڑی دیر بعد ٹیکسی ڈرائیور ایک سگریٹ سلگاتا اور چائے کا تقاضا کرتا۔ حقیر فلاسک میں سے چائے نکال کر اس کا گلاس بھرتا اور قند کا ڈبہ اس کے سامنے رکھ دیتا۔ گاڑی میں ہیٹر آن تھا مگر سگریٹ پیتے وقت وہ اپنی کھڑکی کا شیشہ نیچے کرتا تو یخ بستہ ہوائیں چہرے سے ٹکرانے لگتیں۔ دسمبر کی آخری تاریخیں اور ہم پہاڑی سلسلے کے درمیان سے گزر رہے تھے اور باہر کی فضا بہت سرد تھی۔ ایک بار جب پیٹرول بھرنے کیلئے ڈرائیور نے پمپ پر گاڑی روکی تو حقیر بھی واش روم جانے کیلئے گاڑی سے باہر نکلا اسوقت سخت سردی نے اچھا خاصا حال پوچھ لیا تھا ۔

ایرانی ڈرائیور حضرات خواہ بس چلاتے ہوں یا ٹیکسی، اپنے ساتھ چائے کا فلاسک اور قند رکھنے کے عادی ہیں۔ یہ انھیں دیر تک جاگنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ ہر تھوڑی دیر بعد اسے چائے کا گلاس بھر کر دینا پڑتا تھا ، کبھی حقیر بھی پی لیا کرتا۔

باقی ماندہ سفر اس سے باتیں کرتے ہوئے گزارا۔ یہ ایک سال پاکستان میں بھی رہا ہے اور کسی پٹرولیم انڈسٹری کے پراجیکٹ پر ایرانی کمپنی میں کام کرتا رہا تھا۔ البتہ اردو سے نا واقف تھا۔ ٹیکسی میں قم سے اصفہان کا سفر ساڑھے چار گھنئٹے کا ہے، البتہ بس کے ذریعے یہی سفر تقریبا سات گھنٹے کا ہوجاتا ہے۔

فجر کا وقت ہوچکا تھا اور اصفہان شہر کی حدود بھی شروع ہوگئی تھیں مگر منزل ابھی کافی دور تھی۔ اصفہان شہر رقبے کے لحاظ سے کافی وسیع و عریض شہر ہے۔

ایک پارک کے سامنے ٹیکسی سے اتر کر اس کو پیسے دے کر فارغ کیا اور پارک کے اندر کا رخ کیا۔ یہ ایک بہت بڑا اور خوبصورت پارک تھا۔ اصفہان شہر ویسے بھی اپنے باغات کی وجہ سے بہت معروف ہے۔ اس پارک کا نام پارکِ قلمستان تھا۔ یہاں سخت سردی تھی، ایک شخص سے مسجد کا دریافت کیا۔ مسجد پہنچ کر وضو خانے کا نلکہ کھولا تو برفیلے پانی کی دھار نے ہاتھ گویا سن کردیے تھے، بہر کیف وضو کر کے مسجد میں نماز ادا کی۔ باہر سخت سردی پڑ رہی تھی، سو نماز کے بعد تھوڑی دیر مسجد میں ہی بیٹھا رہا۔ یہاں ایک شخص نماز پڑھنے آیا، تو نماز کے بعد اس سے گفتگو رہی، قریب ہی اس کی رہائش تھی اور شہرداری میں ملازمت کرتا تھا۔ حقیر کی منزل میدانِ امام یا میدانِ نقشِ جہان تھا۔ اس شخص نے جس کا نام محمد تھا، ایک بس پر سوار کرایا اور حقیر بس کے ذریعے میدانِ نقش جہان پہنچ گیا۔ بقیہ احوال اصفہان کے باب میں ملاحظہ کیجئے۔

اصفہان سے واپس آکر ہوٹل کے کمرے میں بیگ رکھ کر نیچے آیا تو کاروان کے باقی لوگ بھی تہران سے واپس آچکے تھے۔ اصغر شاہ جی اور مختار بھائی کے ساتھ حرم میں گیا۔ آج قم میں ہماری آخری رات تھی اور کل صبح ہمیں تہران ائرپورٹ کیلئے روانہ ہوجانا تھا، سو ہم بھی حرمِ حضرت معصومہ ؑ میں داخل ہوکر اپنے دامن پھیلا کر کریمہِ اھلبیتؑ کے فیوض و برکات سے بھرے ہوئے دسترخوان سے اپنا حصہ سمیٹنے میں مشغول ہوگئے۔


journeyofdivinelove.wordpress.com