• صارفین کی تعداد :
  • 3945
  • 9/29/2013
  • تاريخ :

قرآن کي رائے دہشت گردي کے بارے ميں

قرآن کی رائے دہشت گردی کے بارے میں

اسلام اور مغرب کي نظر ميں دہشت گردي (حصّہ اول)

اسلام اور مغرب کي نظر ميں دہشت گردي (حصّہ دوم)

اسلام اور مغرب کي نظر ميں دہشت گردي (حصّہ سوم)

اسلام اور مغرب کي نظر ميں دہشت گردي (حصّہ چہارم)

اسلام اور مغرب کي نظر ميں دہشت گردي (حصّہ پنجم)

7-  ”‌ اسْلُکْ يَدَکَ في جَيْبِکَ تَخْرُجْ بَيْضاء َ مِنْ غَيْرِ سُوء ٍ وَ اضْمُمْ اظ•ِلَيْکَ جَناحَکَ مِنَ الرَّہْبِ فَذانِکَ بُرْہانانِ مِنْ رَبِّکَ اظ•ِلي فِرْعَوْنَ وَ مَلاَئِہِ اظ•ِنَّہُمْ کانُوا قَوْماً فاسِقين“ -  ذرا اپنے ہاتھ کو گريبان ميں داخل کرو وہ بغير کسي بيماري کے سفيد اور چمکدار بن کر برآمد ہوگا اور خوف سے اپنے بازوۆں کو اپني طرف سميٹ لو - تمہارے لئے پروردگار کي طرف سے فرعون اور اس کي قوم کے سرداروں کي طرف يہ دو دليليں ہيں کہ يہ لوگ سب فاسق اور بدکار ہيں -(سورہ قصص، آيت 32) -

ثُمَّ قَفَّيْنا عَلي آثارِہِمْ بِرُسُلِنا وَ قَفَّيْنا بِعيسَي ابْنِ مَرْيَمَ وَ آتَيْناہُ الْاظ•ِنْجيلَ وَ جَعَلْنا في قُلُوبِ الَّذينَ اتَّبَعُوہُ رَاْفَةً وَ رَحْمَةً وَ رَہْبانِيَّةً ابْتَدَعُوہا ما کَتَبْناہا عَلَيْہِمْ اظ•ِلاَّ ابْتِغاء َ رِضْوانِ اللَّہِ فَما رَعَوْہا حَقَّ رِعايَتِہا فَآتَيْنَا الَّذينَ آمَنُوا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ وَ کَثيرٌ مِنْہُمْ فاسِقُونَ

پھر ہم نے ان ہي کے نقش قدم پر دوسرے رسول بھيجے اور ان کے پيچھے عيسٰي عليہ السّلام بن مريم عليہ السّلام کو بھيجا اور انہيں انجيل عطا کردي اور ان کا اتباع کرنے والوں کے دلوں ميں مہرباني اور محبت قرار دے دي اور جس رہبانيت کو ان لوگوں نے ازخود ايجاد کرليا تھا اور اس سے رضائے خدا کے طلبگار تھے اسے ہم نے ان کے اوپر فرض نہيں قرار ديا تھا اور انہوں نے خود بھي اس کي مکمل پاسداري نہيں کي تو ہم نے ان ميں سے واقعا ايمان لانے والوں کو اجر عطا کرديا اور ان ميں سے بہت سے تو بالکل فاسق اور بدکردار تھے - (سورہ حديد، آيت 27) -يہاں پر بھي ”‌رھب“ کے معني خوف و ہراس کے ہيں -

9-  لَاَنْتُمْ اَشَدُّ رَہْبَةً في صُدُورِہِمْ مِنَ اللَّہِ ذلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لا يَفْقَہُونَ -مسلمانوں ان کے دلوں ميں اللہ سے بھي زيادہ تمہارا خوف ہے اس لئے کہ يہ قوم سمجھدار نہيں ہے -(سورہ حشر ، آيت 13) -يہاںپر بھي ”‌رھبہ“ سے مراد خوف ہے اور مراد يہ ہے کہ منافقوں کے دلوں ميں خدا وندعالم سے زيادہ تمہارا خوف ہے -

مندرجہ بالا تمام آيات سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ ان آيات ميں ”‌ارھاب“کے لغوي معني بيان ہوئے ہيں اور کسي بھي صورت ميں ان سے عصر حاضر کے اصطلاحي معني مراد نہيں ہيں، اسي طرح مذکورہ آيات کا مطالعہ کرنے سے اس نتيجہ پر پہنچا جاسکتا ہے کہ قرآن کريم ميں ”‌رھب“ کے مشتقات کے معني منفي نہيں ہيں ليکن آج کے زمانہ ميں ”‌ ارھاب“ کے جواصطلاحي معني بيان ہوتے ہيں ان ميں منفي معني موجود ہيں -(جاری ہے)

 

متعلقہ تحریریں:

اسلام صلح و آشتي، عدل و انصاف اور مہرباني اور انسانيت کي حمايت کرتا ہے

مسلم بہن بھائي بڑي آساني سے غير مسلموں کو  کافر کہتے ہيں