• صارفین کی تعداد :
  • 715
  • 3/21/2013
  • تاريخ :

رہبر انقلاب اسلامي نے نئے شمسي سال کو اقتصادي اور سياسي جہاد کا سال قرار ديا

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای

رہبر معظم کا عيد نوروز اور نئے سال 1391 کي آمد پر پيغام

رہبر انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي فرمايا ہے کہ ايران کے دشمنوں کا کہنا تھا کہ وہ اقتصادي بائيکاٹ کے ذريعے ملت ايران کو بے بس کرديں گے ليکن اس ميں انہيں ناکامي ہوئي اور ہم نے خداوند عالم کے فضل و کرم سے مختلف ميدانوں ميں بہت سي کاميابياں حاصل کيں-

ابنا: رہبر انقلاب اسلامي نے نئے ہجري شمسي سال 1392 کو  ملت ايران کے ليۓ سياسي اور اقتصادي جہاد کا سال قرار ديا-

رہبر انقلاب اسلامي نے نئے ہجري شمسي سال 1392 کے آغاز کي مناسبت سے اپنے پيغام ميں گزشتہ برس ملت ايران کي ترقي و پيشرفت خاص طور پر سامراج کے ساتھ  اقتصادي اور سياسي محاذ آرائي اور ملت ايران کي کاميابي کي جانب اشارہ کرتے ہوئے نئے ہجري شمسي سال کے دوران سياسي اور اقتصادي ميدانوں ميں ملت ايران کي جہادي موجودگي ، باليدگي اور ترقي و پيشرفت پر تاکيد کرتے ہوئے فرمايا کہ خدائے تعالي کے فضل و کرم سے اس سال ايران کے عوام اور حکام اقتصادي اور سياسي ميدانوں ميں کارہائے نماياں انجام ديں گے- آپ نے اپنے پيغام ميں فرمايا کہ گزشتہ برس سامراج کے ساتھ ہمارے مقابلے ميں جو چيز واضح تھي وہ دشمنوں کي جانب سے ملت ايران اور اسلامي جمہوريہ ايران کے نظام کے خلاف اختيار کيا جانے والا سخت رويہ تھا- البتہ ظاہر ميں دشمن کا رويہ سخت تھا ليکن حقيقت يہ ہے کہ ملت ايران نے اس سال مختلف ميدانوں ميں باليدگي کا مظاہرہ کيا اور کاميابياں حاصل کيں-

 رہبر انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي فرمايا ہے کہ ايران کے دشمنوں کا کہنا تھا کہ وہ اقتصادي بائيکاٹ کے ذريعے ملت ايران کو  بے بس کرديں گے ليکن ان کو اس ميں ناکامي ہوئي اور ہم نے خداوند عالم کے فضل و کرم سے مختلف ميدانوں ميں بہت سي کاميابياں حاصل کيں-

رہبر انقلاب اسلامي نے نئے ہجري شمسي سال ميں منعقد ہونے والے صدارتي انتخابات کے بارے ميں فرمايا کہ ايران کے عوام ان انتخابات ميں بھر پور شرکت کر کے اس ميدان ميں بھي اپني اور اپنے ملک کے اچھے مستقبل کي ضمانت فراہم کرديں گے-

پيغام کا ترجمہ يہ ہے:

بسم الله ‎الرّحمن الرّحيم

يا مقلّب القلوب و الأبصار، يا مدبّر اللّيل و النّهار، يا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الي احسن الحال. اللّهمّ صلّ علي حبيبتك سيّدة نساء العالمين فاطمة بنت محمّد صلّي الله عليه و ءاله. اللّهمّ صلّ عليها و علي ابيها و بعلها و بنيها. اللّهمّ کن لوليّك الحجّة بن الحسن صلواتك عليه و علي ءابائه في هذه السّاعة و في کلّ ساعة وليّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دليلا و عينا حتّي تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فيها طويلا. اللّهمّ اعطه في نفسه و ذرّيّته و شيعته و رعيّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جميع اهل الدّنيا ما تقر به عينه و تسرّ به نفسه.

تبريک و تہنيت پيش کرتا ہوں ملک بھر ميں بسنے والے اپنے تمام ہم وطنوں، دنيا کے کسي بھي خطے ميں مقيم ايرانيوں اور ان تمام اقوام کو جو عيد نوروز مناتي ہيں- خاص طور پر اپنے عزيز "ايثار گروں" (دفاع وطن کے لئے محاذ جنگ پر جانے والے افراد) شہداء کے اہل خانہ، "جانبازوں" (دفاع وطن کے لئے مجاہدت کے دوران زخمي ہوکر جسماني طور پر معذور ہو جانے والے افراد) ان کے اہل خانہ اور ان تمام افراد کو جو اسلامي نطام اور وطن عزيز کي خدمت ميں مصروف ہيں- ہم اميد کرتے ہيں کہ اللہ تعالي اس دن اور سال کے اس نقطہ آغاز کو ہماري قوم کے لئے اور تمام مسلمين عالم کے لئے نشاط و شادماني اور بہتر حالات کا سرچشمہ قرار ديگا اور ہميں اپنے فرائض کي انجام دہي ميں کامياب و کامران فرمائے گا- اپنے عزيز اہل وطن کي توجہ اس نکتے کي جانب مبذول کرانا چاہوں گا کہ ايام عيد کے اواسط ميں ايام فاطميہ ہيں اور ايام فاطميہ کي تعظيم و تکريم ہم سب کے لئے لازم ہے-

تحويل سال کي ساعت اور گھڑي در حقيقت ايک اختتام اور ايک آغاز کا درمياني فاصلہ ہے، گزشتہ سال کا اختتام اور سال نو کا آغاز- البتہ بنيادي طور پر تو ہماري توجہ مستقبل کي طرف مرکوز رہني چاہئے، سال نو کو ديکھنا چاہئے اور اس کے لئے خود کو آمادہ کرنا اور ضروري منصوبہ بندي کرنا چاہئے ليکن پيچھے مڑ کر ايک نظر اس راستے پر ڈال لينا بھي ہمارے لئے مفيد ہے جو ہم نے طے کيا ہے تا کہ ہم محاسبہ کر سکيں کہ کيا کيا اور کس انداز سے يہ سفر طے کيا ہے اور ہمارے کاموں کے نتائج کيا نکلے؟ ہم اس سے سبق ليں اور تجربہ حاصل کريں-

91 کا سال (تيرہ سو اکانوے ہجري شمسي مطابق 2012-2013 عيسوي) بڑے تنوع کا سال اور "گوناگوں رنگوں اور نقوش" کا سال رہا- شيريں تغيرات بھي رہے، تلخ واقعات بھي ہوئے، کاميابياں بھي مليں اور کہيں ہم پيچھے بھي رہ گئے- انسان کي پوري زندگي اسي طرح گزرتي ہے، اتار چڑھاۆ اور نشيب و فراز آتے رہتے ہيں- ضرورت اس بات کي ہے کہ ہم نشيب سے باہر نکليں اور خود کو بلندي پر پہنچائيں-

سنہ 91 (ہجري شمسي) کے دوران عالم استکبار سے ہماري مقابلہ آرائي کے اعتبار سے جو چيز سب سے عياں اور آشکارا رہي وہ ملت ايران اور اسلامي نظام کے خلاف دشمن کي سخت گيري تھي- البتہ قضيئے کا ظاہري پہلو دشمن کي سخت گيري کا تھا ليکن اس کا باطني پہلو ملت ايران کے اندر پيدا ہونے والي مزيد پختگي اور مختلف ميدانوں ميں حاصل ہونے والي کاميابيوں سے عبارت تھا- ہمارے دشمنوں کے نشانے پر مختلف ميدان اور شعبے تھے تاہم بنيادي طور پر اقتصادي اور سياسي شعبے ان کے اصلي نشانے تھے- اقتصادي ميدان ميں انہوں نے کہا اور واشگاف الفاظ ميں اعلان کيا کہ پابنديوں کے ذريعے ايراني عوام کي کمر توڑ دينا چاہتے ہيں ليکن وہ ملت ايران کي کمر نہيں توڑ پائے اور فضل پروردگار اور توفيق خداوندي سے ہم مختلف ميدانوں ميں قابل قدر پيشرفت حاصل کرنے ميں کامياب ہوئے، جس کي تفصيلات عوام کے سامنے بيان کي گئي ہيں اور آئندہ بھي بيان کي جائيں گي- ميں بھي انشاء اللہ اگر زندگي رہي تو پہلي فروردين (21 مارچ) کي اپني تقرير ميں اجمالي طور پر کچھ معروضات پيش کروں گا-

اقتصادي شعبے ميں بيشک عوام پر دباۆ پڑا، مشکلات پيدا ہوئيں، خاص طور پر اس لئے بھي کہ کچھ داخلي خامياں بھي موجود تھيں، کچھ کوتاہياں ہوئيں اور تساہلي برتي گئي جس سے دشمن کي سازشوں کو مدد ملي، ليکن مجموعي طور پر اسلامي نظام اور تمام عوام کي حرکت در حقيقت آگے کي سمت بڑھنے والا قدم ہے اور انشاء اللہ اس محنت کے ثمرات اور نتائج مستقبل ميں ہم ديکھيں گے-

سياست کے ميدان ميں ايک طرف تو ان کي کوشش يہ تھي کہ ملت ايران کو تنہا کر ديں اور دوسري طرف ايراني عوام کے اندر شک و تردد کي کيفيت پيدا کر ديں، ان کي قوت ارادي کو کمزور اور بلند حوصلے کو پست کر ديں- ليکن اس کے برعکس ہوا اور نتيجہ اس کے بالکل برخلاف نکلا- ملت ايران کو الگ تھلگ کرنے کا جہاں تک تعلق ہے تو نہ فقط يہ کہ ہماري علاقائي و عالمي سياست کا دائرہ محدود نہيں ہوا بلکہ تہران ميں دنيا کے ممالک کے سربراہوں اور عہديداروں کي کثير تعداد کي شرکت سے ناوابستہ تحريک کے اجلاس کے انعقاد جيسے نمونے سامنے آئے اور دشمنوں کي خواہش کے برخلاف تبديلياں ہوئيں اور ثابت ہو گيا کہ اسلامي جمہوريہ نہ فقط يہ کہ تنہا نہيں ہے بلکہ اسلامي جمہوريہ، ايران اسلامي اور ہماري عزيز قوم کو دنيا ميں خاص احترام و تعظيم کي نگاہ سے ديکھا جاتا ہے-

داخلي مسائل کے اعتبار سے ديکھا جائے تو ہمارے عزيز عوام نے جب احساسات و جذبات کے اظہار کا موقعہ آيا اور اس کا امکان ہوا، خاص طور پر 22 بہمن سنہ 91 (دس فروري 2013، اسلامي انقلاب کي فتح کي سالگرہ) کے موقعے پر اپنے جوش و جذبے کا کما حقہ اظہار کيا- گزشتہ برسوں سے زيادہ جوش و خروش کے ساتھ عوام ميدان ميں آئے- اس کا ايک نمونہ پابنديوں کے اوج کے زمانے ميں صوبہ خراسان شمالي کے عوام کا (صوبے کے دورے کے موقعے پر قائد انقلاب اسلامي کے تاريخي استقبال کے لئے) ميدان ميں آنا تھا، جو اسلامي نظام کے تئيں اور خدمت گزار حکام کے تعلق سے عوام کے احساسات و جذبات کا آئينہ تھا- اس سال کے اندر بحمد اللہ کئي بڑے کام انجام پائے، علمي کاوشيں، بنيادي کام اور عوام و حکام کي طرف سے وسيع کوششيں ديکھنے ميں آئيں- بحمد اللہ تيز رفتاري سے آگے بڑھنے بلکہ جست لگانے کے لئے زمين ہموار ہوئي ہے؛ اقتصادي شعبے ميں بھي، سياسي شعبے ميں بھي اور ديگر حياتي شعبوں ميں بھي-

92 (ہجري شمسي، 21 مارچ 2013 الي 20 مارچ 2014) کا سال لطف پروردگار اور مسلمان عوام کي بلند ہمتي سے جو اميد افزا افق نماياں ہوئے ہيں انہي کے مطابق ملت ايران کي مزيد پختگي، تحرک اور پيشرفت کا سال ثابت ہوگا- اس معني ميں نہيں کہ دشمنوں کي مخاصمت ميں کوئي کمي آ جائيگي بلکہ اس معني ميں کہ اراني قوم کي آمادگي محکم، اس کي شراکت مزيد موثر اور اپنے ہاتھوں سے اور اپنے بھرپور عزم و حوصلے کے ذريعے مستقبل کي تعمير کا عمل انشاء اللہ مزيد بہتر اور اميد بخش ہوگا- البتہ سنہ 92 (ہجري شمسي) ميں جو چيلنج ہمارے سامنے ہيں بنيادي طور پر ان کا تعلق انہي دونوں اہم ميدانوں يعني اقتصاد و سياست سے ہے- اقتصادي شعبے ميں ہميں قومي پيداوار پر توجہ بڑھاني ہے، جيسا کہ گزشتہ سال کے نعرے ميں نشاندہي کي گئي تھي- بيشک بہت سے کام انجام پائے ہيں ليکن قومي پيداوار کي ترويج اور ايراني سرمائے اور کام کي حمايت ايک دراز مدتي مسئلہ ہے جو ايک سال ميں مکمل نہيں ہو سکتا- خوش قسمتي سے سنہ 91 (ہجري شمسي) کي دوسري ششماہي کے دوران قومي پيداوار کي پاليسيوں کي منظوري اور ابلاغ کا عمل انجام پايا، يعني در حقيقت پٹري بچھانے کا کام مکمل ہو گيا اور اب پارليمنٹ اور مجريہ اسي کي اساس پر منصوبہ بندي اور بہترين حرکت کا آغاز کر سکتي ہيں اور بفضل پروردگار بلند ہمتي اور لگن کے ساتھ آگے بڑھ سکتي ہيں-

سياسي امور کے ميدان ميں سنہ 92 (ہجري شمسي) کا ايک اہم مرحلہ صدارتي انتخابات کا ہے، جو در حقيقت آئندہ چار سال کے لئے سياسي و اجرائي مسائل اور ايک اعتبار سے عمومي امور مملکت کي سمت و جہت کا تعين کرے گا- انشاء اللہ عوام اس ميدان ميں بھي اپني بھرپور شرکت کے ذريعے وطن عزيز کي خاطر اور اپنے لئے بہترين افق کا تعين کريں گے- البتہ ضروري ہے کہ اقتصادي شعبے ميں بھي اور سياسي شعبے ميں بھي عوام کي شراکت مجاہدانہ ہو- جوش و جذبے کے ساتھ ميدان ميں قدم رکھا جائے، بلند ہمتي اور پراميد نگاہ کے ساتھ ميدان ميں وارد ہوا جائے، نشاط و اميد سے معمور دل کے ساتھ ميدانوں ميں اترا جائے اور شجاعانہ انداز ميں اپنے اہداف تک پہنچا جائے-

اس زاويہ نگاہ کے ساتھ ميں سنہ 92 (ہجري شمسي) کو "سياسي اور اقتصادي جہاد" کے سال سے معنون کرتا ہوں اور اميد کرتا ہوں کہ اس سال بفضل پروردگار ہمارے عزيز عوام اور ملک کے ہمدرد حکام کے ہاتھوں اقتصادي و سياسي جہاد انجام پائے گا-

پروردگار کي عنايات اور حضرت بقيۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کي دعائے خير کي اميد کرتا ہوں اور عظيم الشان امام (خميني رحمۃ اللہ عليہ) اور شہدائے گرامي کي ارواح مطہرہ پر درود و سلام بھيجتا ہوں-

و السّلام عليكم و رحمةالله و بركاته