• صارفین کی تعداد :
  • 2833
  • 9/2/2012
  • تاريخ :

جہيز کے بارے ميں ايک غلط فہمي کا ازالہ  

جہیز

  مروجہ جہيز کے تعلق سے لوگوں ميں کچھ غلط فہمياں راہ پا گئي ہيں ، جس کو دور کرنا بہت ہي ضروري ہے- گزشتہ صفحات ميں پڑھ آئے ہيں کہ مروجہ جہيز کي شرعي حيثيت کيا ہے- بہت سے افراد يہ خيال کر کے جہيز کا ببانگ دہل مطالبہ کرتے ہيں اور کچھ لوگ اپني ناموري کے ليے اپني بيٹي کو بہت زيادہ جہيز ديتے ہيں کہ محسن انسانيت صلي اللہ عليہ و سلم نے اپني لخت جگر حضرت فاطمہ رضي اللہ تعاليٰ عنہا کي شادي ميں جہيز ديا تھا اور ہمارے بعض نيم عالم مقررين بھي جا بجا اپني تقريروں ميں اس کو بيان کرتے رہتے ہيں جو عوام کي اس غلط فہمي کو مزيد تقويت پہنچا تا ہے ، جب کہ يہ بات سراسر جھوٹ اور بہتان پر مبني ہے- رسول اکرم صلي اللہ عليہ و سلم نے حضرت فاطمہ کي شادي ميں اپني طرف سے جہيز کا کوئي سامان نہيں ديا تھا، ايسے مقررين اور واعظ کو خوفِ خدا کا خيال رکھنا چاہيے، وہ اس طرح کي بے بنياد اور  موضوع باتيں نبي کريم صلي اللہ عليہ و سلم کي طرف منسوب کر کے اپني آخرت برباد کر رہے ہيں- حديث پاک ميں پيارے نبي کريم صلي اللہ عليہ و سلم ارشاد ہے ،فرماتے ہيں :

’’من کذب علي متعمدا فليتبوا مقعدہ من الناررواہ البخاري‘‘- يعني جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے- (مشکوٰۃ المصابيح- ص:32- کتاب العلم )

  اگر ان مقررين کي اس روايت کو درست مان ليا جائے تو ہادي عالم صلي اللہ عليہ و سلم کي شانِ اقدس ميں ناانصافي کا پہلو راہ پاتا ہے- اس ليے کہ انہوں نے حضرت فاطمہ کے علاوہ اپني بقيہ بيٹيوں کو (حضرت رقيہ، حضرت ام کلثوم، حضرت زينب رضي اللہ عنہم) جہيز ميں کچھ بھي نہ ديا تھا، سيرت کي کتابوں ميں اس کا ذکر کہيں نہيں ملتا- لہٰذا صحيح يہي ہے کہ غم خوارِ امت صلي اللہ عليہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضي اللہ تعاليٰ عنہا کي شادي ميں کوئي سامان جہيز نہيں ديا تھا ، رہا وہ سامان جو رخصتي کے وقت ان کو ديا گيا تھا وہ جہيز نہيں تھا ، اس ليے کہ جہيز اس سامان کو کہا جاتا ہے جو والدين کي جانب سے لڑکي کو شادي کے وقت ديا جائے اور يہاں معاملہ اس کے برعکس ہے- کيوں کہ وہ سامان حضرت علي رضي اللہ تعاليٰ عنہ کے پيسے سے خريدے گئے تھے- جس کي ہلکي تفصيل يہ ہے کہ جب حضرت علي مرتضيٰ رضي اللہ تعاليٰ عنہ حضرت فاطمہ کے ليے نکاح کا پيغام لے کر بارگاہ رسولِ اکرم صلي اللہ عليہ و سلم ميں آئے تو آقا صلي اللہ عليہ و سلم نے ان کي درخواست قبول فرما لي-حضرت علي رضي اللہ عنہ نے عرض کيا کہ يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم ميرے پاس مہر کے ليے کچھ نہيں ہے- تو آپ صلي اللہ عليہ و سلم نے پوچھا کہ تمھارے پاس کيا سامان ہے تو انہوں نے عرض کيا کہ ايک زرہ اور ايک گھوڑا- سرورِ دو عالم صلي اللہ عليہ و سلم نے فرمايا کہ گھوڑا جہاد ميں کام آنے والي چيز ہے اسے اپنے پاس رکھو، اور زرہ بيچنے کا حکم ديا- جس کو حضرت عثمان غني رضي اللہ تعاليٰ عنہ نے چار سو اسي (480) درہم ميں خريد ليا، پھر زرہ مع قيمت حضرت علي کو واپس کر ديا اور حضرت علي نے پوري رقم حضور صلي اللہ عليہ و سلم کي خدمت ميں پيش کر دي- آپ صلي اللہ عليہ و سلم نے اس ميں سے ايک مٹھي حضرت بلال حبشي رضي اللہ عنہ کو ديتے ہوئے حکم فرمايا کہ اس سے حضرت فاطمہ کے ليے خوشبو اور بناۆ سنگھار کے سامان کا انتظام کرے اور بقيہ رقم حضرت انس رضي اللہ عنہ کے والدہ ماجدہ حضرت ام سلمہ رضي اللہ عنہا کو دے کر فرمايا کہ اس سے حضرت فاطمہ کے ليے خانہ داري کے ساز و سامان اکٹھا کريں-

          حضرت فاطمہ اپنے ساتھ جو مختصر سامان لائي تھيں ، اس پر تا عمر اضافہ نہ ہو سکا ، آپ کے ساز و سامان ميں ايک مينڈھے کي کھال تھي جو بستر کا کام ديتي تھي اور اوڑھنے کے ليے ايک مختصر سي چادر تھي ، اگر سر چھپاتے تھے تو پاۆں کھل جاتا اور پاۆں ڈھانکتے تو سر برہنہ ہو جاتا تھا- (کنزالعمال- ج:2- ص:409- تاريخ اسلام- ج:1- ص:328)

          بعض کتابوں ميں تکيہ، چکي اور مشکيزہ وغيرہ کا بھي ذکر ملتا ہے، ليکن مذکورہ واقعہ سے يہ کہيں ثابت نہيں ہوتا کہ جہيز دينا آپ کي سنت ہے، واضح رہے کہ جو لوگ داماد اور اس کے گھر والوں کے مطالبہ کے بغير اپني رضا سے بيٹي کو جو سامان جہيز ميں ديں وہ تحفہ اور ہديہ ہے، جس کا دينا جائز اور بہتر ہے-

تحرير: صابر رہبر مصباحي

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

اسلام، جہيز اور سماج