• صارفین کی تعداد :
  • 4135
  • 8/4/2012
  • تاريخ :

ايک لمحہ جمال الدين افغاني کے ساتھ  

جمال الدین افغانی

(جاويد نامہ ميں ) اقبال نے پيرو رومي کے ساتھ اپني فکري اور روحاني سياحت ميں ماضي کي عظيم شخصيات ارباب مذاہب و فلسفہ،اور سياسي ليڈروں اور ادبي تحريکوں کے علمبرداروں سے ملاقاتيں کيں اور پھر اس اچھوتي وادي ميں پہنچنے جہاں آدمي کے قدم نہيں پہنچے تھے، اس ميں فطرت کا جمال اپني اصل و حقيقت کے ساتھ موجود تھا، پہاڑ اور ميدان، چمن زار اور آبشار سب دل کو موہ رہے تھے، شاعر کو تعجب ہوا کہ دنيا دنيائے رنگ و نور ہزاروں سے سال سے انساني تمدن اور صنعتي سرگرميوں سے خالي ہي چلي آ رہي ہے-

جمالِ فطرت فضا کي لطافت، آبشاروں کے ترنم و تکلم اور وادي کي دلبري و رعنائي نے شاعر کو بہت متاثر کيا اسي اثناء ميں وہ اپنے شيخ رومي کي طرف متوجہ ہو کر دور سے آنے والي آواز اذاں پر حيرت کا اظہار کرتے ہيں کہ ميرے کان غلط تو نہيں سن رہے ہيں، رومي ان سے تسلي دينے کے انداز ميں کہتے ہيں کہ يہ تو صلحا اور اولياء ہي کي وادي ہے،ور اس سے ہمارا بھي قريبي رشتہ ہے اس لئے کہ حضرت آدم نے جنت سے نکلنے کے بعد ايک دو دن يہيں قيام فرمايا تھا،اس سرزمين نے ان کي آہِ سحر گاہي اور نالۂ نيم شبي کي صدا سني ہے، اس ميں ان کے اشک ندامت جذب ہوئے ہيں، اس کي زيارت کے لئے بلند مقام لوگ اور فضيل، جنيد و بايزيد جيسے اولياء ہي ہمت کرتے ہيں آۆ ہم اس مقدس وادي ميں وہ نماز شوق ادا کريں جس سے مادي دنيا ميں اب تک محروم تھے-

دونوں آگے بڑھتے ہيں- اور دو آدميوں کو نماز پڑھتے ديکھتے ہيں جس ميں ايک افغاني ہے اور ايک ترک- امام جمال الدين افغاني ہيں اور ان کے مقتدي سعيد حليم پاشاہ رومي اقبال سے کہتے ہيں کہ مشرقي ماۆں  نے ان دونوں سے بڑھ کر کسي کو نہيں جنا، ان کي فکر و نظر نے مشرق کے مرد بيمار ميں روح نشاط پھونک دي اور ايک سرے سے دوسرے سرے تک بيداري کي لہر دوڑا دي، سعيد حليم پاشا قلب درد مند اور فکر ارجمند کے مالک تھے، ان کي روح جتني بے تاب تھي اتني ہي ان کي عقل روشن اور راہ ياب، ان کے پيچھے پڑھي ہوئيں دو رکعتيں عمروں کي عبادت و رياضت سے بڑھ کر تھيں-

سيد جمال الدين نے سورۂ النجم پڑھي، زمان و مکان کي مناسبت،امام کي پر سوز شخصيت، قرآن کے جمال اور قرأت کي موزونيت نے سوز و اثر کي عجيب فضا پيدا کر دي جس ميں آنکھيں اشکبار اور دل بيقرار ہو اٹھے، يہ مسحور رکن قرأت اگر حضرت ابراہيم و جبرئيل بھي سنتے تو لطف اندوز ہوتے اور اس کي داد ديتے، ان کي آواز ميں و ہ تاثير تھي کہ مردے جي اٹھيں قبروں سے ’’الا اللہ‘‘ کے نعرے بلند ہونے لگيں اور حضرت داۆد بھي سوز و مستي کا پيغام سنيں، يہ قرأت ہر پردگي کو آشکار اور اسرارِ کتاب کو بے حجاب کر رہي تھي-

ماخوذ از ’’نقوشِ اقبال‘‘ دوسرا ايڈيشن- مطبوعہ مجلس تحقيقات و نشرياتِ اسلام،لکھنو- 1972ء

پيشکش: شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

ہندوستان ميں تو الہلال کي اشاعت سے پہلے غالباً لوگ سيد جمال الدين کے نام سے بھي آشنا نہ تھے