• صارفین کی تعداد :
  • 2214
  • 12/19/2011
  • تاريخ :

کيا مدينہ کے گھروں کے دروازے تھے؟

مدینہ منورہ

يہ شبہہ «ڈاکٹر سہيل زکار» سے منسوب کيا گيا ہے البتہ کوئي ثبوت موجود نہيں ہے کہ واقعي انہوں نے يہ رائے دي ہے يا نہيں! ليکن مشہور يہي ہے- بہرحال يہ بات بعض دوسروں نے بھي دہرائي ہے لہذا ضروري ہے کہ اس کا مستند تاريخي جواب دے ديا جائے-

ديکھتے ہيں کہ «علامہ سيد جعفر مرتضي عاملي» نے اپني کتاب «مأساة الزہرا (ع)» ــ مطبوعہ 1997 - دارالسيرة بيروت ــ ميں اس موضوع کے بارے ميں کيا لکھا ہے اور ان کے دلائل کيا ہيں:

تاريخ پر باريک بينانہ نظر نہ رکھنے والوں نے دعوي کيا ہے کہ طلوع اسلام کے زمانے ميں مکہ و مدينہ کے گھروں کے موجودہ زمانے کي طرح کے لکڑي کے بنے ہوئے دروازے نہيں تھے اور لوگ گھروں کو اغيار کي نظروں سے بچانے کے لئے پردے لگايا کرتے تھے- ان حضرات نے اس مفروضے کي بنياد پر نتيجہ اخذ کيا ہے کہ سيدہ فاطمہ (س) کے گھر کے دروازے کو آگ لگانے اور آنحضرت کو زخمي کرنے کا قصہ درست نہيں ہے!!

يہ شبہہ «ڈاکٹر سہيل زکار» سے منسوب کيا گيا ہے البتہ کوئي ثبوت موجود نہيں ہے کہ واقعي انہوں نے يہ رائے دي ہے يا نہيں! ليکن مشہور يہي ہے- بہرحال يہ بات بعض دوسروں نے بھي دہرائي ہے لہذا ضروري ہے کہ اس کا مستند تاريخي جواب دے ديا جائے-

ديکھتے ہيں کہ «علامہ سيد جعفر مرتضي عاملي» نے اپني کتاب «مأساة الزہرا (ع)» ــ مطبوعہ 1997 - دارالسيرة بيروت ــ ميں اس موضوع کے بارے ميں کيا لکھا ہے اور ان کے دلائل کيا ہيں:

الف ) مدينہ کے گھروں کے دروازے تھے

1- «ابو فديک» کہتے ہيں: ميں نے «محمدبن ہلال» سے ام المؤمنين عائشہ کے کمرے اور حجرے کي خصوصيات کے بارے ميں سوال کيا تو انہوں نے کہا:

«اس کا دروازہ شام کي جانب تھا»- ميں نے کہا: «اس دروازے کا ايک مصراع (پٹ) تھا يا دو پٹ تھے؟»- انہوں نے کہا:«ايک پٹ»، ميں نے پوچھا: «کس جنس کا تھا؟» انہوں نے کہا: «يا تو وہ عرعر کے درخت کي لکڑي کا تھا يا پھر ساج کے درخت سے بنا تھا»-

( وفاء الوفاء ــ ج2، ص459 و 456 و 542 )

2- «ابوموسي اشعري» کہتا ہے: «ہم رسول اللہ (ص) کے ہمراہ تھے کہ "بئر أديس" کے علاقے ميں وارد ہوئے- پيغمبر (ص) داخل ہوئے اور ہم باہر رہ گئے اور ميں «ايک دروازے کے ساتھ بيٹھ گيا جس کي لکڑي جريب نخل کي تھي»-

( صحيح مسلم ــ ج7، ص 118و صحيح بخاري ــ ج2ــ ص 187)

3- حضرت ابوذر غفاري کہتے ہيں کہ پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا: «اگر کوئي شخص کسي گھر کا سامنے سے گذرے جس کا دروازہ بند نہ ہو اور اس کے اوپر پردہ بھي نہ لٹک رہا ہو اور اس کي نظر گھر کے اندر پڑے تو اس پر کوئي گناہ نہيں ہے بلکہ قصوروار اہل خانہ ہونگے»-

( مسند احمد ــ ج5 ص153)

علامہ جعفر مرتضي عاملي

تلخيص: ع- حسيني عارف

ترجمہ: ف-ح-مہدوي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان