• صارفین کی تعداد :
  • 2426
  • 8/13/2011
  • تاريخ :

علم تجويد کي عظمت

قرآن حکیم

ايسے اصول و آداب اور اس طرح کے شرائط و قوانين کو پيش نظر رکھنے کے بعد پہلا خيال يہي پيدا ھوتا ھے کہ انسان ايسي زبان کو حاصل ھي کيوں کرے جس ميں اس طرح کے قواعد ھوں اورجس کے استعمال کے لئے غير معمولي اور غير ضروري زحمت کا سامنا کرنا پڑے ليکن يہ خيال بالکل غلط ھے - ايک غير مسلم تو يہ بات سوچ بھي سکتا ھے مگر مسلمان کے امکان ميں يہ بالکل نھيں ھے - مسلمان کي اپني کتاب اور اس کا دستور زندگي عربي ميں ھي نازل ھوا ھے- اس کي دنيا و آخرت کا پيغام عربي زبان ھي ميں ھے اور وہ دستور ، قانون زندگي ھونے کے علاوہ رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ و سلم  کا معجزہ اور اس کي برتري کي دليل بھي ھے - اب اگر اس کتاب کو نظر انداز کر ديا گيا تو اسلام کا امتياز ھي کيا رھے گا اور رسالت پيغمبر اسلام (ص) کو ثابت کرنے کا وسيلہ کيا ھوگا -

قرآن صرف دستور حيات ھوتا تو ممکن تھا کہ انسان کسي طرح بھي تلفظ کرکے مطلب نکال ليتا اور عمل کرنا شروع کر ديتا - دستور زندگي معني چاھتا ھے اسے الفاظ کے حسن سے زيادہ دلچسپي نھيں ھوتي - ليکن قرآن کريم معجزہ بھي ھے - وہ قدم قدم پر اپني تلاوت کي دعوت بھي ديتا ھے -اپني فصاحت و بلاغت کا اعلان بھي کرتا ھے اور اپنے سے وابستہ افراد کو متوجہ بھي کراتا ھے کہ اس کے محاسن پر غور کريں اور اس کي خوبيوں کو عالم آشکار کريں -

يہ ناممکن ھے کہ کوئي شخص اس کے ماننے والوں ميں شمار ھو اور اس کي طرف سے بے توجہ ھو جائے - لھذا جب توجہ کرے گا تو تلاوت کرنا ھو گي اور جب تلاوت کي منزل ميں آئے گا تو ان تمام اصول و آداب کو سيکھنا پڑے گا جن سے زبان کا حسن و امتياز ظاھر ھوتا ھے -

قرآن مجيد تو خود بھي ترتيل وغيرہ کا حکم ديتا ھے جس سے يہ معلوم ھوتا ھے کہ وہ بھر طور تلاوت کرا کے اپنے حسن کو پامال نھيں کرانا چاھتا اور اس کا منشاء يھي ھے کہ اس کي تلاوت کي جائے تو انھيں شرائط و آداب کے ساتھ جن سے اس کي عظمت اور اس کا حسن وابستہ ھے-

اس مقام پر يہ بھي ممکن ھے کہ کوئي انسان ان امتيازات کے باوجود تلاوت قرآن نہ کرے اور بھت سے بھت ثواب سے محروم ھو جائے - اس پر کوئي ايسا دباؤ نھيں ھوتا کہ وہ تلاوت کي ذمہ داري ليکر ان تمام مشکلات ميں گرفتار ھو ليکن اسلام نے نماز ميں حمد و سورہ وغيرہ واجب کرکے اس آزادي کو بھي ختم کر ديا اور واضح طور پر بتا ديا کہ تلاوت قرآن ھر مسلمان کا فرض ھے نيز تلاوت عربي زبان کے بغير نھيں ھو سکتي -

 زبان کا عربي رہ جانا بھي اس بات پر موقوف ھے کہ اس کے آداب و شرائط کا لحاظ رکھا جائے اور اس ميں کوئي ترميم اور تبديلي نہ کي جائے - جس کے بعد يہ کہنا بھي صحيح ھے کہ علم تجويد اپني تفصيلات کے ساتھ نہ سھي ليکن ايک مقدار تک واجب ضرور ھے اور اس کے بغير نماز کي صحت مشکل ھے اور نماز ھي کي قبوليت پر سارے اعمال کي قبوليت کا دارومدار ھے- اب اگر کوئي شخص تجويد کے ضروري قواعد کو نظر انداز کر ديتا ھے تو قرات قرآن کي طرح نماز کو بھي برباد کرتا ھے اور جو نماز کو برباد کرتا ھے، اس کے سارے اعمال کي قبوليت پر سواليہ نشان لگ جاتا ھے اور يھي علم تجويد کي عظمت و برتري کي بھترين دليل ھے-

ahlulbaytportal


متعلقہ تحريريں:

اسامي قرآن کا تصور

قرآني معلومات

قرآن مجيد کي آيات ميں محکم اور متشابہ سے کيا مراد ہے؟

کيوں بعض قرآني آيات متشابہ ہيں؟

کيا بسم اللہ تمام سوروں کا جز ہے؟