• صارفین کی تعداد :
  • 1992
  • 6/8/2011
  • تاريخ :

لشکر کي روانگي سے رسول خدا کي آگاہي

بسم الله الرحمن الرحيم

 جب یہ لشکر مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوا تو قبیلہ خزاعہ کے چند سوار نہایت سرعت کے ساتھ پیغمبر کے پاس پہنچے اور سپاہ احزاب کی روانگی کی خبر دی۔

رسول خدا نے آمادگی اور لشکر کی جمع آوری کے اعلان کے ساتھ جنگی ٹیکنیک اور دفاعی طریقہ کار کی تعیین کے لیے اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا۔ اس جنگی مشورہ میں یہ بات پیش ہوئی کہ مدینہ سے باہر نکل کر ان سے جنگ کی جائے یا مدینہ کے اندر موجود رہیں اور شہر کو ایک طرح سے محصور بنا دیں؟ سلمان فارسی نے کہا: اے اللہ کے رسول جب ہم ایران میں تھے تو اس وقت اگر دشمن کے شہ سواروں کے حملہ کا خطرہ ہوتا تھا تو ہم شہر کے چاروں طرف خندق کھو ددیتے تھے۔ دفاع کے لیے جو مجلس مشارت منعقد ہوئی تھی اس میں سلمان کی رائے کو مان لیا گیا رسول خدا نے سلمان کے نقشہ کے مطابق خندق کھودنے کا حکم دیا۔ (مغازی ج۲ ص ۴۴۴)

اس زمانہ میں مدینہ تین طرف سے طبیعی رکاوٹوں جیسے پہاڑوں، نخلستان کے جھنڈ اور نزدیک نزدیک بنے ہوئے گھروں سے گھرا ہوا تھا صرف ایک طرف سے کھلا اور قابل نفوذ تھا۔

رسول خدا نے دس آدمیوں کو چالیس ہاتھ کے ایک قطعہ ارض کو کھودنے پر مامور کیا۔ جزیرة العرب کی گرم اور جھلسا دینے والی ہوا کے برخلاف مدینہ، صحراء کی طرح سرد اور تکلیف دہ ہے، جس دن خندق کی کھدائی ہو رہی تھی اس دن صبح سویرے جب آفتاب بھی نہیں نکلا تھا، جاڑے کی سخت سردی میں تین ہزار مسلمان لبوں پر، پرشور نعرہ اور دلوں میں حرارت ایمانی کے جوش و ولولہ کے ساتھ کام میں شغول ہوگئے اور غروب آفتاب تک کام کرتے رہے رسول خدا بھی تمام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کام میں مشغول تھے۔ پھاؤ ڑے چلاتے مٹی کو زنبیل می ڈال کر کاندھوں پر رکھ کر باہر لاتے تھے۔ سلمان نہایت تیزی سے چند آدمیوں کے برابر کام کر رہے تھے۔ مہاجر و انصار ہر ایک نے کہا کہ سلمان ہم میں سے ہیں۔ لیکن رسول خدا نے فرمایا: سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں۔ (سیرت حلبی ج۳ ص ۳۱۳)

خندق کھودت کھودتے سلمان کے سامنے ایک بہت بڑا سفید پتھر آگیا۔ خود انہوں نے اور دوسرے افراد نے بھی کافی کوشش کی مگر وہ پتھر اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ رسول خدا کو خبر ہوئی تو آپ خود تشریف لائے اور کلہاڑی سے اس پتھر پر ایک ضرب لگائی اس ضرب کی وجہ سے ایک بجلی چمکی اور پتھر کا ایک حصہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ پیغمبر نے صدائے تکبیر بلند کی۔ جب دوسری اور تیسری بار آپ نے کلہاڑی چلائی تو ہر ضرب سے بجلی چمکی اور پتھر کے ٹکڑے ہونے لگے۔ رسول خدا ہر بار صدائے تکبیر بلند کرتے رہے، جناب سلمان نے سوال کیا کہ آپ بجلی چمکتے وقت تکبیر کیوں کہتے ہیں؟

رسول خدانے فرمایا:

جب پہلی بار بجلی چمکی تو یمن اور صنعاء کے محلوں مکو میں نے کھلتے دیکھا، دوسری مرتبہ بجلی کے چمکنے میں شام و مغرب کے کاخہائے سرخ کو فتح ہوتے دیکھا، اور جب تیسری بار بجلی چمکی تو میں نے دیکھا کہ کاخہائے کسری میری امت کے ہاتھوں مسخر ہو جائیں گے۔

مومنین رسول خدا کے کیے ہوئے وعدے سے خوش ہوگئے اور انہوں نے ”بشارت بشارت“ کی آواز بلند کی۔ لیکن منافقین نے مذاق اڑایا اور کہا کہ حالت یہ ہے کہ دشمن ہر طرف سے ٹوٹے پڑ رہے ہیں اور ہم میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ ہم اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے باہر نکل سکیں اور محمد کاخہائے ایران و روم کی فتح کی گفتگو کر رہے ہیں۔ سچ تو ہے کہ یہ باتیں فریب سے زیادہ نہیں ہیں۔ (معاذ اللہ) قرآن منافقین کے بارے میں کہتا ہے: منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری (نفاق) ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدے جو خدا اور اس کے رسول کر رہے ہیں یہ دھوکہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ (تاریخ طبری ج۲ ص ۵۶۹)

منافقین خندق کھودنے میں مسلمانوں کی مدد کر رہے تھے مگر ان کی کوشش تھی کہ کسی بہانے سے اپنے کاندھوں کو اس بوجھ سے خالی کرلیں اس طرح وہ اپنے نفاق کو آشکار کر رہے تھے۔

خندق کی کھدائی تمام ہوئی اس کا طول ۱۲۰۰۰ ہاتھ تقریباً ۴/۵ کلومیٹر گہرائی ۵ ہاتھ اور اس کی چوڑائی اتنی تھی کہ ایک سوار گھوڑے کو جست دے کر پار نہیں کرسکتا تھا۔ آخر میں خندق کے بیچ میں کچھ دروازے بنا دیئے گئے اور ہر دروازہ کی نگہبانی کے لیے ایک قبیلہ معین کر دیا گیا۔ زبیر بن عوام کو دروازہ کے محافظین کی سرپرستی پر معین کیا گیا۔ (تاریخ یعقوب ج۲ ص ۵۰)

مسلمانوں نے بھی خندق کے پیچھے اپنے لیے محاذ بنالیے اور شہر کے دفاع کے لیے تیر انداز مکمل آمادگی کے ساتھ موجود تھے۔

مدینہ لشکر کفار کے محاصرے میں

کفر کا حملہ آور لشکر ابوسفیان کی سرکردگی میں خندق کھد جانے کے چھ دن بعد سیلاب کی طرح مدینہ پہنچ گیا۔ انہوں نے شہر کے چاروں طرف اور اپنے آگے ایک بڑی خندق دیکھی تو مسلمانوں کی اس دفاعی ٹیکنیک پر ان کو تعجب ہوا۔ جنگی دیدہ وروں نے کہا یہ فوجی ٹیکنیک محمد نے ایرانیوں سے سیکھی ہے اس لیے کہ عرب اس ڈھنگ سے واقف نہیں ہیں۔ ان لوگوں نے مجبوراً اپنے خیمے خندق کے سامنے لگالیے۔ دشمن کے لشکر کے خیموں سے سارا بیابان سیاہ ہوگیا۔ لشکر اسلام نے بھی خندق کے اس طرف خیمے لگا لیے اور دشمن سے مقابلے اور ان کے حملے سے بچنے کے لیے تیار ہوگئے۔

بنی قریظہ کی عہد شکنی

لشکر احزاب اور اس کے کماندار ابو سفیان جن کے سروں میں مسلمانوں پر برق رفتاری سے کامیابی حاصل کرنے کا سودا سمایا ہوا تھا، خندق جیسی بڑی رکاوٹ کے سامنے آجانے سے اب راستہ کی تلاش میں لگ گئے تاکہ لشکر کو خندق کے پار پہنچا سکیں۔

حی بن اخطب یہودی جو قبیلہ بنی نضیر کا شہر بدر کیا ہوا سردار اور جنگ کی آگ بھڑکانے کا اصلی ذمہ دار تھا۔ خندق کی موجودگی سے سپاہ احزاب کے حملہ کا ناکام ہوت ہوئے دیکھ کر سب سے زیادہ خوف زدہ تھا، وہ کوشش کر رہا تھا ہ جلد سے جلد احزاب کی کامیابی کا کوئی راستہ مل جائے۔ اس نے مدینہ کے اندر سے محاذ کھولنے کا ارادہ کیا۔ اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بنی قریظہ کے وہ یہودی جو مدینہ میں مقیم تے، بہترین وسیلہ تھے۔ اس نے رئیس قبیلہ سے گفتگو کرنے کا ارادہ کیا، قلعہ بنی قریظہ کی طرف گیا اور قلعہ کے بند دروازوں کے پیچھے سے گفتگو کی، لیکن قبیلہ بنی قریظہ کے سردار کعب بن اسد نے جواب دیا کہ ہم نے محمد سے عہد و پیمان کیا ہے اور ہم یہ معاہدہ توڑ سکتے اس لیے کہ سوائے سچائی اور وفاداری کے ان سے ہم نے اور کچھ نہیں دیکھا ہے۔

حی، کعب کے احساسات کو بھڑکانے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے اپنے لیے قلعہ کا دروازہ کھلوالیا۔ قلعہ میں داخل ہوا اور بنی قریظہ کے بزرگ افراد کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ رسول خدا سے کئے ہوئے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیں اور اپنی فوجیں نیز دوسرے سامان حملہ آوروں کو دے دیں۔

 

 عنوان : تاريخ اسلام

پيشکش : شعبہ تحرير و پيشکش تبيان

بشکريہ پايگاہ اطلاع رساني دفتر آيت اللہ العظمي مکارم شيرازي


متعلقہ تحريريں :

غزوہ? بني نضير

سريہ عمرو بن اميہ

بئر معونہ کا واقعہ

رجيع کا واقعہ

پنجشنبہ يکم محرم سنہ ? ہجري قمري ميں