• صارفین کی تعداد :
  • 2436
  • 6/6/2011
  • تاريخ :

رجيع کا واقعہ

بسم الله الرحمن الرحيم

پيغمبر اکرم دشمنوں کي سازشوں کو ناکام بنانے اور امن و امان قائم رکھنے کي غرض سے جنگي دستوں کو بھيجنے کے ساتھ ساتھ مناسب موقع سے ثقافتي اور تبليغياتي دستے بھي ان قبائل کي طرف بھيجتے رہتے تھے جو لاتعلق تھے.  تاکہ اسلام کے معارف کي نشر و اشاعت ہوسکے اور کبھي خود قبائل کي درخواست پر بھي مبلغ بھيجے جاتے تھے.

رجيع کا واقعہ احد کے بعد اس طرح پيش آيا کہ قبيلہ ”‌عضل” اور ”‌قارہ” کا ايک وفد رسول خدا کے پاس پہنچا اور آپ سے کہا کہ ہمارے قبيلے کے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے ہيں اپنے اصحاب کي ايک جماعت آپ ہمارے يہاں بھيج ديں تاکہ وہ ہم کو قرآن اور احکام اسلام سکھائيں-

رسول خدا نے فريضہ الہي کے بموجب چھ افراد کو ان کے ساتھ بھيجا اور مرثد بن ابي مرثد غنوي کو اس جماعت کا قائد معين فرمايا: مبلغين اسلام احکام الہي پہنچانے کے ليے ان دونوں قبيلوں کي طرف روانہ ہوئے کہ ان کے ايک ہاتھ ميں اسلحہ اور دوسرے ميں قرآن کے نوشتے اور سينہ ميں علوم التہي اور عشق خدا تھا- مکہ سے 70 کلوميٹر شمال کي جانب جب چشمہ رجيع پر پہنچے تو دونوں قبيلوں نے اپنا پيمان توڑ ديا اور ھذيل کي مدد سے ان پر حملہ کر ديا-

معلمين قرآن نے اپنا دفاع کيا ليکن حملہ آوروں نے کہا کہ ہم تمہيں قتل نہيں کريں گے- ہم تم کو قريش کے ہاتھوں زندہ بيچ ديں گے اور اس کے مقابل ان سے کچھ چيزيں حاصل کريں گے- تين مبلغين نے کسي بھي طرح اپنے کو ان کے حوالہ کرنے سے انکار کيا اور نہايت بہادري سے مقابلہ کرتے ہوئے شہيد ہوگئے- دوسرے تين افراد زيد، خبيب اور عبداللہ نے اپنے کو ان کے حوالہ کر ديا- حملہ آور تينوں کو مکہ کي طرف لے گئے تاکہ ان کو قريش کے ہاتھوں فروخت کر ديں- ابھي آدھے راستہ ہي پہنچے تھے کہ عبداللہ نے تلوار پر قبضہ کرکے جنگ کي يہاں تک کہ شہيد ہوگئے- ان لوگوں نے دوسرے دو اسيروں کو مکہ کے بڑے لوگوں کے ہاتھوں فروخت کر ديا- زيد کو صفوان بن اميہ نے پچاس اونٹوں کے بدلے خريدا تاکہ وہ ان کو اپنے باپ اميہ بن خلف کے خون کے انتقام ميں قتل کر دے- اور خبيب کو عقبہ بن حارث نے آٹھ مثقال سونے کے عوض خريدا تاکہ وہ ان کو اپنے باپ کے انتقام ميں دار پر چڑھا دے جو بدر ميں مارا گيا تھا-

زيد کي حيات کے آخري لمحہ ميں ابو سفيان آگے بڑھا اور اس نے کہا کہ کيا تم يہ پسند کرتے ہو کہ تمہاري جگہ محمد قتل ہو جائيں؟ زيد نے کہا کہ خدا کي قسم مجھے يہ پسند نہيں ہے کہ محمد کے پير ميں ايک کانٹا بھي چبھے يا ان کو کوئي آزار پہنچائے اور ميں صحيح و سالم بچ جاؤں-

ابو سفيان نے کہا کہ :

”‌ميں نے ابھي تک محمد جيسا کسي کو نہيں ديکھا جو اپنے اصحاب ميں اس طرح کي محبوبيت رکھتا ہو-”

خبيب نے بھي چند دنوں تک زندان ميں رہ کر شہادت پائي- شہادت کے وقت انہوں نے اجازت مانگي تاکہ دو رکعت نماز ادا کرليں- اس کے بعد انہوں نے فرمايا کہ خدا کي قسم اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ تم گمان کرو گے کہ ميں موت سے ڈر گيا تو ميں اور زيادہ نمازيں پڑھتا- پھر آسمان کي جانب رخ کرکے دعا کي- تختہ دار پر لٹکانے کے بعد ان کے سامنے کافروں نے يہ پيشکش رکھي کہ اسلام کو چھوڑ ديں- انہوں نے جواب ميں خدا کي وحدانيت کي گواہي دي اور کہا کہ خدا کي قسم روئے زمين کي ساري چيزيں مجھے دے کر اگر يہ کہا جائے کہ اسلام چھوڑ دو تو بھي ميں اسلام نہيں چھوڑوں گا-

اس مجاہد اور شہيد کا پاکيزہ جسم ايک مدت تک تختہ دار پر لٹکا رہا، آخرکار خفيہ طور پر کسي نے اتارا اور دفن کر ديا- (تاريخ طبري ج2 ص 530، 542)

عنوان : تاريخ اسلام

پيشکش : شعبہ تحرير و پيشکش تبيان

بشکريہ پايگاہ اطلاع رساني دفتر آيت اللہ العظمي مکارم شيرازي


متعلقہ تحريريں :

اسلام اور ہر زمانے کي حقيقي ضرورتيں ( حصّہ دوّم )

مدينہ ميں منافقين کي ريشہ دوانياں

حجلہ? خون

ايک عارف بوڑھے کي شہادت

ايک مالدار عقلمند کي شہادت