• صارفین کی تعداد :
  • 3867
  • 4/17/2011
  • تاريخ :

ہم روشنی ہیں

جنگل

جنگل بہت گھنا اور پراسرار تھا۔۔ شام ہونے کو تھی اور ایزو کو ابھی تک راستہ نہیں ملا تھا۔۔ اس کو گھر جانا تھا۔۔ جہاں ممی اس کے کھانےکے لیے پیزا بنا کر رکھا ہوگا۔ وہ ممی کو کہہ کر آئی تھی کہ میوزک کلاس کے بعد وہ گھر جلد لوٹے گی اور پیزا کھائے گی۔ ممی اس کا انتظار کر رہی ہوں گی۔۔

وہ تھوڑی تھوڑی حیران اور پریشان زیادہ تھی۔۔ وہ تو مدد کرنے آئی تھی۔۔۔ اس کو اپنے دوست روبیو اور ایلا کے ساتھ مل کر میوزک کی پریکٹس کرنی تھی۔۔

میوزک جس کی ایزو دیوانی تھی۔۔ اس کے ہاتھ میں ہر وقت چھوٹا سا وائلن رہتا تھا۔۔ ان کے اسکول میں ہر ماہ کسی ایک کلاس کو مارننگ پریر کے بعد ایک ایکٹ پلے کرنا ہوتا تھا اس بار گریڈ تھری کی باری تھی اور ایزو کی ٹیچر نے اس بار ان لوگوں کا گروپ چنا تھا۔۔

روبیو کی بورڈ پلے کرتا تھا اور ایلا کی آواز بہت اچھی تھی۔ ان کا میوزک ٹیبلو تھیم اس وقت ایک شہزادی کا تھا جو دوسرے بچوں کی خوشی کے لیے بہت کام کرتی ہے۔۔۔۔

تینوں دوستوں نے فیصلہ کیا تھا کہ شام کو مل جل کر خوب پریکٹس کریں گے تینوں کے گھر پاس پاس تھے۔ ایزو ممی کو پیزا بنانے کا کہہ کر نکلی تھی۔۔ مگر یہ گھنا جنگل کہاں سے آ گیا۔ اس سے راستہ کیسے گم گیا؟

چلتے چلتے ایزو کی اپنی پیروں پر نظر پڑی۔" اوہ۔۔۔ میرے جوتے۔۔۔۔۔ میرے جوتے کہاں ہے؟"

دکھ سے جیسے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔ وہ مسلسل کئی گھنٹوں سے چلے جا رہی تھی اور راستہ تھا کہ سمٹنے میں نہیں آ رہا تھا ۔۔ گھنے جنگل میں دھیرے دھیرے بڑھتے اندھیرے اس کا دل دہلائے دے رہے تھے۔۔ اس کو ممی' پاپا یہاں تک کہ سب دوست بھی بہت یاد آ رہے تھے۔

وہ اللہ پاک سے مسلسل دعا کر رہی تھی کہ اس کو راستہ دکھائی دے جائے۔ مگر راستہ تو کہیں کھو گیا تھا۔۔اندھیروں میں ڈوب گیا تھا۔۔ اس کا ننھا سا دل خوف کی وجہ سے سکڑے جا رہا تھا۔۔ اور ساتھ ہی ڈر کہ کہیں کوئی جانور نہ آجائے۔۔

تھک کر ایزو بیٹھ گئی۔۔ اس کو بھوک بھی لگ رہی تھی اور پیاس بھی اور اب تو نیند نے بھی ستانا شروع کر دیا تھا۔

اس کو اپنے گھر کا ڈائننگ ٹیبل بھی یاد آ رہا تھا۔ جہاں اس وقت ممی اور پاپا دونوں بیٹھے ہوں گے اور اس کا انتظار ہو رہا ہوگا مگر وہ تو یہاں تھی اس جنگل میں۔۔

جانے کیسے وہ اس جنگل میں آ گئی تھی۔۔

روشن ہر دل کو کرتے ہیں، درپن ہر گھر کا بنتے ہیں

ہم ننھے منے تارے ہیں، جو ہر سو اجالا کرتے ہیں

ہم پاپا کی آنکھوں کی ٹھنڈک

ماما کے دل کی راحت ہیں

نانی کے راج دلارے بھی

اور نانا جی کی چاہت ہیں

دادی کا زیور، گہنا ہم

دادا کے گھر کی زینت ہیں

ہم ننھے منے تارے ہیں، جو ہر سو اجالا کرتے ہیں

یہ مانوس دھن اور گیت کے بول سن کر ایزو کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا اس کی گود میں پڑا وائلن غائب تھا اور وہ ایک کرسی پر بیٹھی تھی۔۔ جنگل میں ایک خوبصورت سی راہداری بنی ہوئی تھی روشنیوں کی رنگوں کی۔۔ جس میں ہر رنگ تھا۔۔ اس نے چونک کر چاروں طرف دیکھا۔۔

اس کے گرد ننھے منے بچے کھڑے تھے اس کے ہی ہم عمر۔۔ اور ان کی آنکھوں میں روشنیاں تھیں ' لبوں پر مسکراہٹ وہ ایزو کو دیکھ کر بہت خوش تھے۔ اور ایزو ان کو دیکھ کر شکر بجا لا رہی تھی کہ کسی خطرناک جانور کی جگہ یہ بچے ملے۔۔

ان بچوں کے لباس چمکدار روشنیوں کے بنے ہوئے تھے۔۔ ان میں الگ الگ رنگ لہریں لیتے تھے جس سے عجیب سی چمک پیدا ہوتی ہے۔ ایزو نے ایسا لباس کبھی نہیں دیکھا تھا اس کو ان بچوں کا لباس کا بہت اچھا لگا۔۔

ان میں سے ایک بچی نے ایزو کو جھجکتے ہوئے دیکھا اور اپنا تعارف کرایا۔۔" میں ایما ہوں۔۔۔ ہم سب بچے آپ سب دوستوں کا گانا روز شوق سے سنتے ہیں۔۔ کیا آپ ہم کو بھی سکھائیں گی۔۔"

ایزو نے جب یہ دیکھا کہ بچے اس کے ہم شوق ہیں تو وہ بھی ان میں گھل مل گئی۔۔" ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔ مگر پہلے میرے فرینڈ بنو سب پھر۔۔ میں تم کو بھی سکھاؤں گی۔۔"

سب بچے ایک ایک کر کے اپنا تعارف کرا رہے تھے۔ وہ لوگ بہت خوش تھے ایزو کی آمد سے۔۔ وہ سب مل کر کھیلنے لگے مگر اچانک ایزو کو یاد آیا کہ وہ تو گھر سے باہر ہے ایک گھنے جنگل میں۔

اس کے ننھے دوست اس کی اداسی بھانپ گئے اور اس کو خوش کرنے کےلیے وہی گیت گانے لگے۔۔

ہم ٹم ٹم کرتے سے جگنو

راہوں میں اجالے بچھاتے ہیں

ہم جھر جھر بہتا پانی ہیں

پیاسوں کی پیاس بجھاتے ہیں

ہم نور ہیں سب کی آنکھوں کا

دل ک رستے بن جاتے ہیں

ہم ننھے منے تارے ہیں، جو ہر سو اجالا کرتے ہیں

ایزو بھی ان میں شامل ہوگئی۔۔

ہم شہزادے، ہم شہزادی

جو دلوں کو مسخر کرتے ہیں

خوشبو بن کے ان پھولوں کی

ہواؤں کو معطر کرتے ہیں

معمار ہیں ہم مستقبل کے

اک قوم کو تعمیر کرتے ہیں

ہم ننھے منے تارے ہیں، جو ہر سو اجالا کرتے ہیں

اتنے میں ایک اور آواز اس میں شامل ہوئی بہت سریلی اور مدھر آواز۔۔ سب بچے رک گئے۔ اس نئی آنے والی نے کہا :" پیارے بچوں! رک کیوں گئے۔۔ گیت پورا کرو نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ بہت خوبصورت تھی اس کے سنہری بال جو اس کے شانوں پر پھیلے ہوئے تھے۔۔ سر پر ننھا سا تاج ۔ کتابی چہرہ اور چمکدار آنکھیں اور مسکراتے لب اور ان سے نکلتے سریلے نغمے۔۔ اور لباس سے پھوٹتی روشنیاں۔ کتنے رنگ تھے اس لباس میں دیکھنے والا سحرزدہ ہوجاتا اور رنگ گننے والا گنتی بھول جاتا۔۔

ایزو اس کو دیکھتی رہ گئی۔۔۔ سحر زدہ ہوگئی۔۔ اس کے منہ سے بےاختیار نکلا۔۔: " تم تو۔۔۔ تم تو۔۔۔۔"

وہ ایزو کی حیرانگی دیکھ کر مسکرائی اور اشارے سے اپنے پاس بلا کر اس سے کہا:" ہاں میں وہی شہزادی ہوں جو بچوں کی مدد کرتی ہے۔ ان کو راستہ دکھاتی ہے جب وہ کسی مشکل یا پریشانی میں ہوں۔۔"

" تو کیا تم۔۔۔۔۔۔۔ میری مدد کرو گی۔۔ میں کب سے اس جنگل میں راستہ بھٹک رہی ہوں۔۔"

" ہاں کیوں نہیں ہماری ایزو تو ایک بہت اچھی بچی ہے۔ اپنی ممی کی کام میں مدد کرتی ہے۔ دوستوں کو پڑھائی میں ساتھ دیتی ہے۔ کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ ہمیشہ صاف ستھرا رہتی ہے۔ اپنا ہوم ورک بھی ٹھیک سے کرتی ہے۔۔ تو ایسے اچھے بچوں کی میں مدد کیوں نہیں کروں گی بھلا۔۔۔ ایسے اچھے بچوں کی مدد کے لیے تو میں ہوں۔۔"

ایزو خوشی کے مارے اس سے لپٹ گئی۔۔

شہزادی نے کہا اپنے ننھے دوستوں کو اللہ حافظ نہیں کہو گی۔ جنہوں نے تمہارا اتنی دیر تک دل بہلایا جتنی دیر تک میں تم تک پہنچتی۔۔"

" پر ان کو کیسے علم کہ آپ یہاں آنے والی ہیں۔۔" ایزو حیران ہوئی۔

شہزادی مسکرا کر بولی: " اچھے بچوں میں سے ایک روشنی سی نکلتی ہے جیسے یہاں موجود بچوں میں سے نکل رہی ہے۔۔"

" اوہ تو کیا یہ ان کے لباس نہیں۔۔۔"

" نہیں' نہیں۔۔ یہ ان کے لباس نہیں ان کی اچھائی ہے جو روشنی کی صورت دکھتی ہے۔ اپنا لباس بھی دیکھو ذرا۔۔۔" شہزادی نے ایزو کو کہا۔۔

ایزو نے سر جھکا کر دیکھا واقعی اس کے لباس میں سے بھی ویسی ہی روشنی اور رنگ نکل رہے تھے جیسے وہاں موجود سارے بچوں کے لباس میں تھے۔

وہ ایک دم سے خوش ہوگئی۔۔

" اچھا چلو میں تم کو تمہارے گھر لے چلو۔۔" یہ کہہ کر شہزادی نے ایزو کا ہاتھ تھاما اور اس کو لے کر روشن راہداری کی طرف چل پڑی۔۔ ایما نے اس کو ست رنگے پھولوں کا ایک گچھا بھی دیا۔۔سب بچے ہاتھ ہلا ہلا کر ایزو کو اللہ حافظ کہہ رہے تھے۔۔

وہ اس روشن راہداری سے گزرے تو ایزو کا گھر سامنے تھا۔۔

" ارے ۔۔۔ یہ تو بالکل قریب ہے۔۔ پھرمجھے کیوں نہیں ملا۔۔۔" ایزو نے حیرانگی سے شہزادی سے سوال کیا۔۔

شہزادی کے لبوں پر وہی مخصوص مسکراہٹ تھی۔۔ اس نے ایزو سے کہا۔ " ہمارا رستہ روشنی کا تھا اس لیے ہم نے جلدی سفر کیا ہے ورنہ ہم تو یہاں سیکنڑوں کوس کے فاصلے پر تھے۔۔"

ایزو نے جلدی سے آگے بڑھ کر شہزادی کا شکریہ کہا اور اپنے گھر کے راستے چل دی۔

" شہزادی نے اس کو آواز دی۔۔" ایزو۔۔۔۔۔۔!"

ایزو نے مڑ کر دیکھا۔

شہزادی نے کہا: " تم کچھ بھول رہی ہو۔۔" اور اشارہ اس کے وائلن کی طرف کیا۔۔ ایزو جلدی سے آگے بڑھی اور شہزادی کا ایک بار پھر شکریہ کیا۔۔

" ایزو۔۔۔ ایزو۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ممی کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی۔۔۔

" اوہ تو کیا میں سو رہی تھی۔۔۔۔" اس نے جلدی سے اپنی آنکھیں ملیں۔

ممی مسلسل پکار رہی تھیں۔ " ایزو جلدی کرو پیزا ٹھنڈا ہوجائے گا۔۔"

ایزو جلدی سے اٹھی اور اپنے خواب پر مسکرائی۔۔ اور سر ہلا کر منہ دھونے واش روم کی طرف چلی اس کی نظر اپنے پیروں پر پڑی۔ ان پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ اس نے جلدی سے مڑ کر شیلف پر رکھے ہوئے اپنے وائلن کو دیکھا۔۔ اس میں سے روشنیاں نکل رہی تھیں۔۔ اور وہ ست رنگے پھول بھی تھے۔ جن سے روشنیاں پھوٹ رہی تھیں۔۔

تحریر: مونا سید


متعلقہ تحریریں :

دو کبوتر (حصّہ چهارم)

دو کبوتر (حصّہ سوّم)

دو کبوتر (حصّہ دوّم)

دو کبوتر (حصّہ اول)

بہت مہنگی قیمت میں حلوا