• صارفین کی تعداد :
  • 4206
  • 10/13/2010
  • تاريخ :

اصالتِ روح (حصّہ دهم)

بسم الله الرحمن الرحیم

مذكورہٴ گذشتہ  باتوں كی تائید كے لئے ہم یہاں پر" ازوالڈكولپہ" كی موٴلفہ كتاب " مقدمہ ای بر فلسفہ" ترجمہٴ جناب احمد آرام، سے كچھ اقتباسات پیش كررہے ہیں۔ مذہب مادیت پر تنقید كرتے ہوئے " اِزوالڈ كولپہ" كہتا ہے:

" مذہب مادیت جدید علم فزكس كے قوانین میں اسے ایك اہم قانون " بقائے قوت" كی مخالفت كرتاہے، اس قانونكے مطابق دنیا میں موجود انرجی كی مكمل مقدار قائم ہے، ہمارے چاروں طرف جو تغیّرات اور تبدیلیاں نظر آتی ہیں، وہ انرجی كے ایك نقطہ سے دوسرے نقطہ تك انتقال اور ایك صورت سے دوسری صورت و شكل اختیار كرنے كے سوا كچھ نہیں، اس قانون كے مطابق بخوبی واضح ہوجاتا ہے كہ فزكس كے آثار و ظواہر ایك " مربوط حلقے" كی تشكیل كرتے ہیںجس میں عقلی اور نفسیاتی آثار و ظواہر كی گنجائش ناممكن ہے۔ لہٰذا دماغی عملیات خاص قسم كی پیچیدگی اور ابہام ركھنے كے باوجود اُن ظواہر میں محسوب ہونگےجو قانون (علّت و معلول) علیّت كے تابع ہوتے ہیں اور خارجی اثرات كے نتیجہ میں جو تغیّرات دماغ پر طاری ہونگے وہ بہر حال خالص فریكل اور كیمكل شكل میں ہوں گے پھر اسی شكل میں انہیں منتشر بھی ہونا چاہئے، اس طرح كے كلّی نظریہ سے اشیار كا(عقلانی ہونا) عقلی پہلو ہوا یں معلق رہ جاتا ہے۔ اس لیے كہ ظواہر كی فزیكل قوت سے كچھ كم و كاست كیے بغیر نفسیاتی ظواہر كو فزیكل اور مادی تصوّر كرنا كیسے ممكن ہے؟ اس كا منطقی حل صرف یہ ہے كہ ہم عقلی عملیات كے لئے بھی اس كی دوسری كمیكل، الكٹریكل اور حرارتی اور مكاینكی قوتوں كے مد مقابل ایك خاص قوّت كے قائل ہوجائیں، اور یہ قبول كرلیں كہ اس خاص قوت اور دوسری جانی پہچانی انرجیوں كے درمیان وہی نسبت ثابت و برقرار ہے جو دوسری تمام قوتوں كے درمیان موجود ہے، لیكن یہ كہنا لازمی ہے كہ مادیت پسند علما اور دانشوروںے اس نظریہ كے بارے میں نہ اظہار خیال كیاہے اور نہ ہی كسی نے مادیت پسند تحریروں میں اس پر تفصیلی گفتگو كی ہے البتہ مجموعی اعتراضات جو اس عقیدے كے مدمقابل ہیں ان پر اظہار نظر سے روكتے رہتے یں۔ تمام ہونے والے اعتراضات كی اساس یہ ہے كہ فزكس كے ماہرین، انررجی كی جو تعبیر كرتے ہیں وہ عقلی فكری ظواہر و اعمال پر ہرگز قابل انطباق نہیں ہے۔

كرسی موریسن اپنی كتاب "راز آفرینش انسان" ترجمہ محمد سعیدی "میں بیان كرتا ہے:

"جانوروں كے درمیان صاحب فكر و شعور انسان كا ظہور، اس تصورسے كہ یہ ظہور مادے كے تحوّل اور تبدیلی كا معلول ہے اور كسی خالق كا اس میں دخل نہیں" كہیں بلند و بالاتر ہے۔ اس صورت كے علاوہ انسان كو ایك مكانیكی آلہ ہونا چاہیے جس كی كاركردگی دوسرے كے ہاتھ ہے۔ اب یہ دیكھا جائے كہ اس مشین سے كاملینے اور اسے چلانے والا كون ہے؟ سائینس نے اب تك اس مشین كے چلانے والے كے بارے میں نہ كوئی تاویل پیش كی ہے اور نہ ہی اسے پہچان سكی ہے، لیكن دنیا بھر میں یہ بات مسلم ہے كہ اس مشین كو چلانے والا بذات خود مادے كا جز نہیں ہے۔"

اسی طرح كہتا ہے؛

" مادّہ، اپنے ذاتی قوانین و مقررات كے سوا كوئی عمل انجام نہیںدیتا، ذرّات اور ایٹم زمینی قوت جاذبہ اوركیمیاوی فعل و انفعالات نیز فضائی اثر اور الكٹریسٹی سے متعلق قوانین كے تابع ہیں۔ مادہ بذات خود كوئی نیا عمل كرنے كی صلاحیت نہیں ركھتا یہ فقط زندگی ہی ہے جو ہر لمحہ خوبصورت اور نئے نئے مناظر پیش كرتی رہتی ہے۔"

علماء و حكما، علّت و معلول یا كائنات كے رموز و اسرار سے متعلق بحث كرتے ہوئے (جیسے ابن سینا، اشارت كی دسویں تمط میں) روحی آثار و قوا كا ذكر خصوصیت سے كرتے ہیں صدرالمتاٴلھین ملا صدرا نے علّت و معلول سے متعلق بحث كو اسفار میں ایك فصل كی شكل دی ہے اور وہ اس عنوان سے كہ: "فكرو تصوّر كبھی كبھی اشیاء كے حدوث كا سبب بنتے ہیں" اس فعل سے انكی مراد مادے پر حیات كی حكومت و قاہریت نیز فكر و تصوّر كے اثرات كا اثبات ہے جو شئون حیات میں داخل ہے۔

اس فصل كے اجزا (پیراگراف اور ضمنی مباحث) میں ایك موضوع یہ بھی چھیڑا ہے كہ صحت و بیماری كی ایجاد میں سمجھنے سمجھانے اور توہم كے اثرات كا بھی دخل ہے۔

بحث بہت طویل و دلچسپ ہے مگر ہم اسی پر اكتفا كرتے ہیں كہ آج كے دور میں اس پرانے اور دقیانوسی طرز فكر (دنیا محض مشینی دنیا ہے اور خلقتِ ذرّات كی تاٴلیف و تركیب اور جمع و تفریق كے سوا اور كچھ نہیں) كہ كوئی گنجائیش نہیں رہ گئی، بات اس كے آگے بڑھ چكی ہے۔

دانشوروں كی تحقیقات نے مادیت پسندوں كے غرور كو مكمل طور سے ختم كردیا ہے اور اب كوئی ڈیكارتے اور دوسروں كی طرح یہ نہیں كہے گا كہ "مادہ اور حركت مجھے دے دو میں دنیا بناؤں گا" دنیا كی شاخیں اس سے كہیں زیادہ ہیں كہ ہم اسے مادہ، اور مادے كی حسیّ اور عرضی حركت میں محصور كرسكیں۔

 

مؤلف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری

مترجم: خادم حسین

پیشكش گروہ ترجمہ سایٹ صادقین


متعلقہ  تحريريں:

اصالتِ روح (حصّہ چهارم)

اصالتِ روح (حصّہ پنجم)

اصالتِ روح (حصّہ ششم)

اصالتِ روح (حصّہ هفتم)

اصالتِ روح (حصّہ هشتم)

اصالتِ روح (حصّہ نهم)

ابتلاء و آزما‏ئش اور اس کی حکمتیں

صفات ذاتی وصفات فعلی

علم و ایمان کا باہمی رابطہ

علم و ایمان باہم متضاد نہیں