• صارفین کی تعداد :
  • 2835
  • 10/13/2010
  • تاريخ :

بربَھاری كا واقعہ

وهابیت

بربَھاری كا واقعہ ابو محمد حسن بن علی بن خَلَفِ بربھاری جو بغدادی حنبلیوں كا رئیس تھا؛اور كچھ خاص نظریات ركھتا تھا،اگر كوئی شخص اس كے عقائد اور نظریات كی مخالفت كرتا تھا تواس كی شدت سے مخالفت كرتا تھا، اور اپنے ساتھیوں كو بھی اس كے ساتھ سختی كرنے كا حكم دیتا تھا۔ اس كے ساتھی لوگوں كے گھروں كو ویران كردیتے تھے ۔ لوگوں كو خرید و فروخت سے بھی روكتے تھے، اور اگر كوئی اس كی باتوں كو نھیں مانتا تھا تو اس كو بھت زیادہ ڈارتے تھے۔

بربَھاری كے كاموں میں سے ایك كام یہ بھی تھا كہ حضرت امام حسین ں پر نوحہ وگریہ وزاری، اور كربلا میں آپ كی زیارت سے كو منع كرتا تھااور نوحہ ومرثیہ پڑھنے والوں كے قتل كا حكم دیتا تھا۔

چنانچہ ”خِلب“نام كا ایك شخص نوحہ اور مرثیہ پڑھنے میں بھت ماھر تھا، جس كا ایك قصیدہ تھا جس كا پھلا مصرعہ یہ ھے:

”اَیُّها الْعَیْنَانِ فَیضٰا وَاسْتَہِّلاٰ لاٰ تَغِیْضٰا“

جو امام حسین كی شان میں پڑھا كرتا تھا، ھم نے اس كو كسی ایك بڑے گھرانے میں سناھے، اس زمانہ میں حنبلیوں كے ڈر سے كسی كو حضرت امام حسین ں پر نوحہ ومرثیہ پڑھنے كی جراٴت نھیں هوتی تھی، اور مخفی طور پر یا بادشاہ وقت كی پناہ میں امام حسین ں كی عزاداری بپا هوتی تھی۔

اگرچہ ان نوحوں اور مرثیوں میں حضرت امام حسین علیه السلام كی مصیبت كے علاوہ كچھ نھیں هوتا تھا اور اس میں سلف كی مخالفت بھی نھیں هوتی تھی،لیكن اس كے باوجودجب بربھاری كو اطلاع هوئی تو اس نے نوحہ خوان كو تلاش كركے اس كے قتل كا حكم دیدیا۔

اس زمانہ میں حنبلیوں كا بغداد میں اچھا خاصا رسوخ تھا جس كی بناپریہ لوگ ھمیشہ فتنہ وفساد كرتے رھتے تھے۔ جس كا ایك نمونہ محمد ابن جَرِیر طبری صاحب تاریخ پر حملہ تھا:

طبری، اپنے دوسرے سفر میںطبرستان سے بغداد پهونچے اور جمعہ كے روز حنبلیوں كی جامع مسجد میںپهونچے وھاں پر ان سے احمد حنبل اور اس حدیث كے بارے میں جس میں خدا كے عرش پر بیٹھنے كا تذكرہ ھے، نظریہ معلوم كیا گیا، تو اس نے جواب دیاجو احمد حنبل كی مخالفت بھی نھیں تھی، لیكن حنبلیوں نے كھا: علماء نے اس كے اختلافات كو اھم شمار كیا ھے، اس پر طبری نے جواب دیا: میں نے نہ خوداس كو دیكھا ھے، اور نہ اس كے كسی مودر اعتماد صحابی سے ملاقات كی ھے جو اس بارے میں مجھ سے نقل كرتا،اور خدا وندعالم كے عرش پر مستقر هونے والی بات بھی ایك محال چیز ھے۔

جس وقت حنبلیوں اور اھل حدیث نے اس كی یہ بات سنی تواس پر حملہ شروع كردیا، اور اپنی دوا توں كو اس كی طرف پھینكنا شروع كردیا، وہ یہ سب دیكھ كر وھاں سے نكل بھاگے، حنبلیوں كی تعداد تقریباً ایك ہزار تھی انھوںنے ان كے گھر پرپتھروں سے حملہ كردیا یھاں تك كہ گھر كے سامنے پتھروں كا ایك ڈھیر لگ گیا۔

بغداد كی پولیس كا افسر ”نازوك“ ہزار سپاھیوں كا لشكر لے كر وھاں پهونچا اور طبری صاحب كو ان كے شر سے نجات دلائی، او رپورے ایك دن وھاں رھا، اور حكم صادر كیا كہ اس كے گھر كے سامنے سے پتھروں كا ڈھیر ہٹایا جائے۔

حنبلی مذھب كے علماء مثلاً ابن كثیر اور ابن عماد وغیرہ نے بربھاری كے بارے میں بھت باتیں بیان كی ھیں جن میں سے بعض مبالغہ ھیں، ابن كثیر اس كو ایك زاہد، فقیہ اور واعظ كھتے هوئے لكھتا ھے: چونكہ بربھاری كو اپنے باپ كی میراث كے سلسلے میں ایك شبہ پیدا هوا جس كی بناپر اس نے میراث لینے سے انكار كردیا جبكہ اس كے باپ كی میراث ستّر ہزار (اور ابن عماد كے قول كے مطابق 90ہزار) درھم تھی۔

اسی طرح ابن كثیركا قول ھے : خاص وعام كے نزدیك بربھاری كا بھت زیادہ احترام ا ور عزت تھی، ایك روز وعظ كے دوران اس كو چھینك آگئی تو تمام حاضرین نے اس كے لئے دعائے رحمت كرتے هوئے جملہٴ ”یرحمك اللہ“كھا جو چھینك آنے والے كے لئے كہنا مستحب ھے، اور یہ آواز گلی كوچوں تك پهونچی، اور جو بھی اس آواز كو سنتاتھا یرحمك اللہ كھتا تھا، اور اس جملہ كو تمام اھل بغداد نے كہنا شروع كردیا، یھاں تك كہ یہ آواز خلیفہ كے محل تك پهونچی، خلیفہ كو یہ شور شرابہ گراں گذرا اور كچھ لوگوں نے اس كے بارے میں مزید بدگوئی كی جس كے نتیجہ میں خلیفہ نے اس كو گرفتار كرنے كی ٹھان لی لیكن وہ مخفی هوگیا اور ایك ماہ بعد اس كا انتقال هوگیا۔

لیكن خلیفہ وقت كے ناراض هونے اور اس كو گرفتار كرنے كے ارادہ كی اصل وجہ یہ تھی كہ وہ عام عقیدوں كی مخالفت كرتا تھا اسی وجہ سے خلیفہ نے اس كے خلاف اپنا مشهور ومعروف حكم صادر كیا جس كی طرف بعد میں اشارہ كیا جائے گا۔

ابو علی مُسكُویہ323ھ كے حالات میں كھتا ھے كہ اسی سال بَدرخَرشنی (صاحب شُرطہ) نے بغداد میں یہ اعلان كروایا كہ ابو محمد بربھاری  كے مریدوں میں كوئی بھی دوآدمی ایك جگہ جمع نہ هوں، بدر خرشنی نے اس كے مریدوں كو جیل میں ڈلوادیا لیكن بربھاری وھاں سے بھاگ نكلا یا مخفی هوگیا، اس كی وجہ یہ تھی كہ بربھاری اور اس كے پیروكار ھمیشہ فتنہ وفساد كرتے رھتے تھے۔ اس گروہ كے سلسلے میں خلیفہ الراضی كا ایك فرمان صادر هوا جس میں بربھاری كے مریدوں كے عقائد مثلاً شیعوں كی طرف كفر وضلالت كی نسبت دینا اور ائمہ كی قبور كی زیارت وغیرہ كو ناجائز ماننا جیسے امور كا تذكرہ تھا اور ان كو اس بات سے ڈرایا گیا تھا كہ یا تو وہ اس كام سے باز آجائیں، ورنہ ان كی گردن قلم كردی جائے گی،اور ان كے گھر او رمحلوں كو آگ لگادی جائے گی

ابن اثیر حنبلیوں كے بغداد میں فتنہ وفساد كے بارے میں اس طرح رقمطراز ھے كہ323 میں حنبلیوں نے بغداد میں كافی اثر و رسوخ پیدا كرلیا اور قدرت حاصل كرلی، بدرخرشنی صاحب شرطہ نے دسویں جمادی الآخر كو فرمان صادر كیا كہ بغداد میں یہ اعلان كردیا جائے كہ بربھاری كے مریدوں میں سے دو آدمی ایك ساتھ جمع نھیں هو سكتے، اور اپنے مذھب كے بارے میں كسی سے مناظرہ كرنے كا بھی حق نھیں ركھتے، اور ان كا امام جماعت نماز صبح ومغرب وعشاء میں بسم اللہ كو بلند اور آشكار كھے۔ لیكن بدرخرشنی كا یہ كام مفید ثابت نھیں هوا بلكہ بربھاری كے مریدوں میں مزید فتنہ و فساد پھیل گیا۔

ان كا ایك كام یہ تھا كہ وہ نابینا حضرات جو مسجدوں میں اپنی پناہ گاہ بنائے هوئے تھے ان كو اس كام كے لئے آمادہ كرتے تھے كہ جو بھی شافعی مذھب مسجد میں داخل هو، اس كو اتنا مارو كہ وہ موت كے قریب پهونچ جائے۔

ابن اثیر خلیفہ راضی كے حنبلیوں كے بارے میں فرمان سے متعلق گفتگو كرتے هوئے یوں تحریر كرتا ھے كہ خلیفہ راضی نے بربھاری كے مریدوں پر سختی كی اور ان كو ڈرایا، كیونكہ وہ خدا وندعالم كی مثل اور تشبیہ كے قائل تھے اور خداوند عالم كو ھتھیلیوں اور دوپیر اور سونے كے جوتے اور گیسوٴں والا مانتے تھے اور كھتے تھے كہ خداوند عالم آسمانوں میں اوپر جاتا ھے اور دنیا میں نازل هوتا ھے، اسی طرح منتخب ائمہ پر طعنہ زنی كرتے تھے اور شیعوں كو كفر وگمراھی كی نسبت دیتے تھے، اور دیگر مسلمانوں كو كھلی بدعتوں كی طرف دعوت دیتے تھے جن كا قرآن مجید میں كھیں تذكرہ تك نھیں، اور ائمہ علیهم السلام كی زیارت كو منع كرتے تھے اور زائرین كے عمل كو ایك برے عمل سے یاد كرتے تھے۔

بربھاری 329ھ میں 96سال كی عمر میں مرگیا، وہ كسی عورت كے گھر میں چھپا هوا تھا، اور اس كو اسی گھر میں بغیر كسی دوسرے كی اطلاع كے غسل وكفن كے بعد دفن كردیا گیا۔

ابن اثیر اس سلسلہ میں كھتا ھے : بر بھاری حنبلیوں كا رئیس جو مخفی طور پر زندگی گذار رھا تھا 329 ھ میں 76 سال كی عمر میں فوت هوا، اور اس كو ” نصر قشوری “ كے قبرستان میں دفن كیا گیا۔

كتاب:تاریخ وھابیت

مؤلف : فقیهى، علي اصغر

مترجم / مصحح : اقبال حیدر حیدری


متعلقہ  تحريريں:

 جعفر صادق کا شیعہ کون ہے؟

اخلاص کا نتیجہ

شیعیان کی سفارش قبول ہوگی

علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام

شیعت کا آغاز اور تعد اد

شیعوں کا عقیدہٴ عدل الٰھی

شیعوں کاعقیدہٴ وظائف امامت

شیعوں کے عبادی اعمال

شیعوں کے یھاں مختلف زیارتوں کے اہتمام کی علت

شیعوں کا عقیدہٴ توسل اور شفاعت