• صارفین کی تعداد :
  • 4356
  • 5/29/2010
  • تاريخ :

ہم تو روز مدرز ڈے مناتے ہیں

مسلمان ماں

کیا ماں بھی کوئی ایسی ہستی ہے جسے سال میں ایک بار یاد کیا جائے؟ کیا ماں کو یاد کرنے کے لیئے کسی مدرز ڈے کی ضرورت ہے؟ کیا مادیت پرست دنیا نے اس دن کو بھی کمرشل بنا کر ”ماں” کے لفظ کا استحصال نہیں کیا؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم ”بھیڑ چال” کے عادی ہو چکے ہیں اور مغرب کی زہر بھی قند محسوس ہوتی ہے.

میں تو اپنی جنت مکانی ماں کو روز یاد کرتا. ہر سانس کے ساتھ اسکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنی سانسیں دیکر میری سانسوں کو سلامت رکھا. خود آدھی روٹی کھائی اور ہمیں گھی سے چُپڑی ہوئی کھلائی. جب ہم سب کھانا کھا چکے تو اُس نے کھایا. وہ ہم سب کو سُلا کر سوئی اور ہمارے جاگنے سے پہلے جاگی.

ماں تو آیتِ محبت ہے،ماں تو حدیث قدسی کا سرنامہ ہے، ماں تو خُدا کی محبت کی آخری حد ہے اسی لیئے تو وہ 70 ماؤں کی محبت کا امین ہے، ماں تو شدید دھوپ میں محبت کا سائبان ہے.

یہ ضروری تو نہیں کہ ماں کی یاد اس کے جانے کے بعد ہی آئے. ضروری تو یہ ہے کہ اسے اس کی زندگی میں ہی ہر سانس کے ساتھ خراج محبت و عقیدت پیش کیا جائے. اسے اس فخر کا روزانہ احساس دلوایا جائے کہ وہ ماں ہے. ماں جو خدا کے بعد دوسرا سب سے بڑا اور سب سے باعزت لفظ ہے. وہ لفظ جو دنیا بھر میں ہر بچہ اپنی زبان سے سب سے پہلے ادا کرتا ہے کہ زبان پاک ہو جائے۔

میری جنت مکانی ماں کسی یونیورسٹی یا کالج کی ڈگری ہولڈر نہیں تھی لیکن کسی کم وکاست کے بغیر کہہ سکتا ہوں کہ اس کی ذہنی وسعت اور علمی استعداد و صلاحیت کسی ڈبل پی ایچ ڈی سے کم نہیں تھی. فارسی کی موٹی موٹی کتابیں اور دین و فلسفے کی کتابیں وہ رات کے اُس پہر میں پڑھا کرتی تھیں جب سارے بچوں کو سلوا لیتی تھیں. صبح ہم سب بچوں کے اٹھنے سے پہلے فجر کی نماز کے بعد جب وہ اپنی مترنم اور شیریں آواز میں یہ مناجات پڑھتی تھیں تو گھر کے سامنے لگے درخت کے پرندے بھی خاموشی سے سنتے تھے.

”ساماں شتاب کر دے مرے دل کے چین کا

.پروردگار واسطہ خونِ حسین کا.

میری لکھی ہوئی ایک نعت کے ایک شعر کو دنیا بھر میں بڑی مقبولیت ملی ہے اور اسکی وجہ بھی ماں ہی ہے.

یا نبی کہتی تھی ماں فجر میں جب پڑھ کے درود

شکمِ مادر میں بھی تب میں نے محمد لکھا !!

 سچ پوچھیں تو زمین پر خدا کی محبت کا چلتا پھرتا روپ ماں ہی تو ہے.

کرہء ارض پر بسنے والی اور عالمِ ارواح میں خدائے بزرگ و برتر کی قربت میں رہنے والی ہر ماں کو اسکے ہر بیٹے اور بیٹی کا سلام ۔

بابا کی ماں نہیں ھیں لیکن ھر لمحے ان کی یاد ان کی دعا سایئبان کی طرح ان کے سر پر سایہ فگن ھے ۔ان کی  تربیت ان کے لہو میں بولتی ھے ۔۔

میری ماں حیات ھے ۔ میری دعاؤں کا چھتناور میرے ساتھ ساتھ چلتا ھے ۔ اور مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنا ھے ۔۔

اس دنیا میں کتنے ھی ایسے لوگ ھیں جو احسان کے طور پر اپنی زندہ ماؤں کے ساتھ ،  سال میں صرف ایک دن “ مدرز ڈے “ کا دن مناتے ھیں اور وہیں کئی لوگ ایسے بھی ھیں جو اپنی ماؤں کی بیتی یادوں سے لپٹ کر روز مدرز ڈے مناتے ھیں اور جدائی کی نوحہ آنسوؤں سے لکھتے  ھیں

ماں ، میری پیاری ماں

تیری دعاؤں کا بادل

ابٍر بہار کی مانند

میرے ساتھ چلتا تھا

تیرا پیار بے مثل

مجھے سب سے بے نیاز رکھتا تھا

میری ننھی ھتیلیاں تیری گرم مٹھی میں بند تھیں

تیرے ساتھ تیری آنکھیں بھی نظریں اتارتی تھیں

مجھے یاد ھے اب تک

میں گر پڑا تھا

تحریر : جناب صفدر ھمدانی


متعلقہ تحریریں:

اسلام ميں خواتين کي فعاليت و ملازمت

تربيت اولاد