• صارفین کی تعداد :
  • 6203
  • 1/20/2008
  • تاريخ :

حضرت علی(ع) کے نام و نسب

 

علی(ع)

نام و نسب

حضرت علی (ع) : شیعوں کے پھلے امام

اسم گرامی : علی (ع)

لقب : امیر المومنین

کنیت : ابو الحسن

والد کا نام : عمران ( ابو طالب )

والدہ کا نام : فاطمہ بنت اسد

تاریخ ولادت : ۱۳/ رجب ۳۰    ء عام الفیل

جائے ولادت : مکّہ معظمہ خدا کے گھر میں ( خانہ کعبہ کے اندر )

مدّت امامت : ۳۰ / سال

عمر مبارک : ترسٹہ (۶۳) سال

تاریخ شھادت : ۲۱/ رمضان المبارک ۴۰ھء مسجد کوفہ میں

شھاد ت کا سبب : عبد الرحمن بن ملجم کی زھر آلودہ ضربت کا اثر

روضہٴ اقدس : عراق ( نجف اشرف )

اولاد کی تعداد : ۱۸/ بیٹے ، ۱۸/ بیٹیاں

بیٹوں کے نام : (۱) امام حسن مجتبیٰ (ع) (۲) امام حسین (ع)(۳) محمد حنفیہ (۴) عباس اکبر (۵) عبد اللہ اکبر (۶) جعفر اکبر (۷) عثمان (۸) محمد اصغر (۹) عبد اللہ اصغر (۱۰) عبد اللہ مکنی بابی علی (۱۱) عون (۱۲) یحییٰ (۱۳) محمد اوسط (۱۴) عثمان اصغر (۱۵) عباس اصغر (۱۶) جعفر اصغر(۱۷) عمر اکبر (۱۸) عمر اصغر۔

بیٹیوں کے نام : (۱) زینب کبریٰ (۲) زینب صغریٰ بہ نام ام کلثوم (۳) رملة کبریٰ (۴) ام الحسن (۵) نفیسہ (۶) رقیہ صغریٰ (۷) رملةصغریٰ (۸) رقیہ کبریٰ (۹) میمونہ (۱۰) زینب صغریٰ (۱۱) ام ّ ھانی (۱۲) فاطمة صغریٰ (۱۳) امامہ (۱۴) خدیجہ صغریٰ (۱۵) امّ کلثوم (۱۶) ام ّ سلمہ (۱۷) حمامہ (۱۸) ام کرام ۔

بیویاں : ۱۲

انگوٹھی کے نگینے کا نقش: الملک للّہ الوٰحد القھّار

 

 

ولادت

  پیغمبر خدا کی عمر تیس برس کی تھی کہ خانہ کعبہ جیسے مقدس مقام پر 13رجب30عام الفیل میں علی علیہ السّلام کی ولادت ھوئی . آپ کے والد ابو طالب علیہ السّلام اور ماں فاطمہ بنتِ اسد علیھا السلام کو جو خوشی ھونی چاھیے تھی وہ تو ھوئی ھی مگر سب سے زیادہ رسول الله اس بچے کو دیکھ کر خوش ھوئے . شاید بچّے کے خد وخال سے اسی وقت یہ اندازہ ھوتا تھا کہ یہ آئندہ چل کر رسول کاقوتِ بازواور دستِ راست ثابت ھوگا .

 

 

تربیّت

  حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے ذریعے ھوئی۔ آپ نے انتھائی محبت اور توجہ سے اپنا پورا وقت اس چھوٹے بھائی کی علمی اور     اخلاقی تربیت میں صرف کیا. ذاتی جوھر اور پھر رسول جیسے بلند مربیّ کافیض تربیت، چنانچہ علی دس ھی برس کے سن میں ایسے تھے کہ پیغمبر کے دعوائے رسالت کرنے پر ان کے سب سے پھلے پیرو بلکہ ان کے دعوے کے گواہ قرار پائے .

 

 

بعثت

  حضرت علی علیہ السّلام کا سن دس برس کا تھا جب حضرت محمد مصطفے(ص) عملی طور پر پیغام الٰھی کے پھنچانے پر مامور ھوئے، اسی کو بعثت کھتے ھیں . زمانہ , ماحول, شھر , اپنی قوم اور خاندان سب کے خلاف ایک ایسی مھم شروع کی جارھی تھی جس میں رسول کاساتھ دینے والا کوئی آدمی نظر نہ آتا تھا بس ایک علی تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو آپ نے سب سے پھلے اس کی تصدیق کی اور ایمان کااقرارکیا . دوسری ذات جناب خدیجہ کبریٰ علیھا السّلام کی تھی جنھوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام کے اس شرف کو حاصل کیا .

 

علی(ع)

 

دور مصائب

  پیغمبر کادعوائے رسالت کرنا تھا کہ ھر ھرذرہ رسول کادشمن نظر آنے لگا . وھی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اورامانتداری کادم بھرتے تھے آج آپ کو ( معاذ الله) دیوانہ , جادو گر اور نہ جانے کیا کیا کھنے لگے, راستوں میں کانٹے بچھائے جاتے , پتھر مارے جاتے اور سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا . اس سخت وقت میں رسول کا ھر مصیبت میں شریک صرف ایک بچّہ تھا , وھی علی جس نے بھائی کاساتہ دینے میں کبھی ھمت نھیں ھاری , برابرمحبت ووفاداری کادم بھرتے رھے , ھر ھربات میں رسول کے سینہ سپر رھے , یھاں تک کہ وہ وقت بھی آیا جب مخالف گروہ نے انتھائی سختی کے ساتہ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر کااور ان کے تمام گھرانے والوں کا بائیکاٹ کیا جائے , حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے . ابو طالب علیہ السّلام نے حضرت محمد مصطفےٰ سمیت اپنے تمام ساتھیوں کو ایک پھاڑ کے دامن میں قلعہ میں محفوظ کردیا , تین برس تک یہ قید وبند کی زندگی بسر کرنا پڑی . اس میں ھر شب یہ اندیشہ تھا کہ کھیں دشمن شب خون نہ مار دے . اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نھیں رھنے دیتے تھے بلکہ جعفر(ع) کو رسول کے بستر پر اور رسول کو عقیل (ع)کے بستر پر اور پھر رسول کو جعفر(ع)کے بستر پرلٹا دیتے تھے اورپھر رسول کو علی علیہ السّلام کے بستر پر. مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کاپتہ لگا کر حملہ کرنا چاھے تو میرا کوئی بھی بیٹا قتل ھوجائے مگر رسول کا بال بیکانہ ھو. اس طرح علی بچپن ھی سے فدا کاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دھراتے رھے.

 

ھجرت

  اس کے بعد وہ وقت آیا کہ ابو طالب علیہ السّلام کی وفات ھوگئی جس سے اس جاں نثار چچا کی وفات سے پیغمبر کا دل ٹوٹ گیا اور آپ نے مدینہ کی طرف ھجرت کاارادہ کرلیا جس پر دشمنوں نے ارادہ کیا کہ ایک رات جمع ھو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شھید کرڈالیں , حضرت کو اس کی اطلاع ھوئی تو آپ نے اپنے جاں نثار بھائی علی کو بلا کر اس واقعہ کی اطلاع دی اور فرمایا کہ میری جان کی حفاظت یوں ھوسکتی ھے کہ تم آج کی رات میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفی طور پر مکہ سے روانہ ھوجاؤں . کوئی دوسرا ھوتاتو یہ پیغام سنتے ھی اس کا دل دھل جاتا , مگر علی نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ رسول کی جان کی حفاظت ھوگی خدا کاشکر ادا کیا اور بھت خوش ھوئے کہ مجھے رسول کافدیہ قرار دیا جارھا ھے , یھی ھوا کہ رسالت مآب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ھوگئے اور  علی علیہ السّلام رسول کے بستر پر سوگئے , چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ھوئے مکان کوگھیرے ھوئے تھے . بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ھو او رسب کے سب گھر میں گھس کر رسالت ماب کو شھید کر ڈالیں . علی علیہ السّلام اطمینان کے ساتہ بستر پرآرام کرتے رھے اور ذرا بھی اپنی جان کاخیال نہ کیا دشمنوں کو صبح کے وقت  معلوم ھوا کہ محمد تو رات ھی چلے گئے تھے . انھوں نے ا