• صارفین کی تعداد :
  • 8289
  • 8/19/2014
  • تاريخ :

حساسيت اور اس کي علامات

حساسیت اور اس کی علامات

کيا آپ کو باربار چھينکنا پڑتاہے ؟ يہ حساسيتِ بيني يعني ناک کي الرجي ہوسکتي ہے- کيا آپ کا دَ م گھٹتاہے، سانس لينے ميں دشوار ي محسوس ہوتي ہے-  شايد حساسيت کي وجہ سے پھيپھڑوں کي نالياں متورم ہو چکي ہيں-

کيا آپ کے چہرے ، بازو،ٹانگوں ياجسم کے کسي اور حصہ پر سرخي (جلن اور ورم)چھائي ہوئي ہے ،يہ شايد جِلد کي حساسيت ہے-

کيا چنے ، انڈے کي سفيدي يا پيسٹري کھانے کے بعد آپ کو اسہال استفراغ کي شکايت لاحق ہوگئي…يہ شايد غذائي حساسيت ہے-

حساسيت کي ''غير معروف ''دنيا ميں داخل ہونے کے بعد يہ بات عياں ہو جاتي ہے کہ حساسيت کرہّ ارض پر رہنے والے بني نوع انسان کو بلالحاظ عمر ، رنگ و نسل ، مذہب ،فرقہ و جنس اپني لپيٹ ميں لے ليتي ہے- يہ انسان کيلئے ايک مزمن اور ناراحت کنندہ مسئلہ ہے-  ڈاکٹروں کي رائے ہے کہ ہر پانچواں کشميري کسي نہ کسي قسم کي حساسيت کا شکار ہے- اگر آپ حساسيت ميں مبتلا ہيں يا اس کا شکار رہ چکے ہيں تو پ بخوبي جانتے ہونگے- يہ انسان کو نيند جيسي نعمت سے محروم کرتي ہے- وہ سکول،کالج ،دفتر يا گھروں ميں اپنا کام تن دہي اور دلجمعي سے انجام نہيں دے سکتا- مشاغل اور سير تفريح ميں شامل ہونے سے کتراتاہے- گھر کے اندر يا باہر مجالس ميں شموليت سے لطف اندوز نہيں ہوسکتا- غرض انسان زندگي کي لذّتوں سے محروم ہو جاتاہے- اس کے باوجود بھي لوگ اسے نظر انداز کرتے ہيں اور اسے اہميت نہيں ديتے اور اس بارے ميں کسي دوسرے سے بات کرنا يا تو ضروري نہيں سمجھتے يا جان بوجھ کر اسے صيغہ راز ميں رکھتے ہيں يا اس ''راز'' کو عياں کرنے سے شرماتے ہيں حالانکہ اپني حساسيت کے بارے ميں دوسروں سے بات چيت کرنا مدد گار اور سود مند ثابت ہوتاہے-

خالقِ کائنات نے کارخانہ جسمِ انساني کو اس قدر پيچيدہ بنايا ہے کہ ابھي تک ہزارہا رازِدروں سے پردہ نہيں اْٹھايا جاسکاہے- انساني جسم بعض چيزوں کے معاملے ميں اس قدر حساس واقع ہوا ہے کہ ان کے چھو جانے يا جسم ميں داخل ہو جانے سے ايک ردعمل پيدا ہوتاہے- اس ردعمل کو حساسيت يا الرجي کا نام ديا گيا ہے اور جو چيز يہ ردعمل پيدا کرتي ہے ، اسے حساسيہ(الرجن)کہا جاتاہے-يعني حساسيت کا مطلب کسي جسماني (ظاہري يا باطني) يا ماحولياتي شے کے لئے جسم کا بدلا ہوا ردعمل ہے- بالفاظ ديگر حساس افراد کے جسم ميں پادتن ايميونوگلوبن اي طبعي مقدار سے زيادہ پيدا ہوتے ہيں کيونکہ انساني جسم باہر سے داخل شدہ شئے کو ''دشمن'' تصور کرتاہے او راسکے مقابلہ کيلئے ئي جي اي کو مادہ کرتاہے- حساسيہ (الرجن)اور ئي جي اي کے درميان تصاد م سے جو اثرات پيدا ہوتے ہيں وہ حساسيت کي علامات کے روپ ميں ظاہر ہوتے ہيں- شايد آپ کو معلوم نہ ہو کہ ايک چيز جو آپ کے جسم ميں حساسيت پيدا کرے وہي چيز دوسرے کے جسم پر کوئي اثر نہ کرے- جب ہمارے جسم ميں کسي بھي وجہ سے حساسيت شروع ہوتي ہے تو ايک کيميائي مادہ ہسٹامين پيدا ہوتاہے جو حساسيت ميں شدت کا باعث ہوتا ہے-اسي لئے حساسيت کا توڑ کرنے کيلئے معالج انٹي ہسٹامينک دوائياں تجويز کرتے ہيں تاکہ حساسيت کے علائم (مثلاً خارش)ميں کمي واقع ہوسکے-

سوال يہ ہے کہ کسي چيز کے ردعمل ميں جسم طبعي مقدار سے زيادہ IGEکيوں پيداکرتاہے- اس کيلئے کئي عوامل اور محرکات ذمہ دار ہيں-

lاگر آپ کے والدين کسي قسم کي حساسيت کے شکار ہوں يا رہ چکے ہوں تو آپ کے حساسيت ميں مبتلا ہونے کے امکانات بہت زيادہ ہيں-بعض اوقات کوئي خاص حساسيت خانداني يا موروثي ہوتي ہے- تحقيق سے ثابت ہواہے کہ ايک سال سے کم عمر کے بچے عام غذا سے ايسي صلاحيت ميں مبتلا ہوجاتے ہيں جو تاخر عمر ان کا پيچھا نہيں چھوڑتي- تاہم بچے دودھ اور انڈے جيسي غذاسے پيدا ہونے والي حساسيت سے چھٹکارہ پاسکتے ہيں-

ماحولياتي لودگي ميں حساسيوں کي موجودگي انساني جسم ميں حساسيت کا باعث بنتي ہے- حساسيے سانس کے ذريعے جسم ميں داخل ہوسکتے ہيں يا جسم کي جلد کو چھو سکتے ہيں يا نکھوں سے ٹکرا کر حساسيت پيدا کرسکتے ہيں (جيسے گردوخاک،ريزہ گل، پھپھوند وغيرہ) يا غذا (انڈے کي سفيدي ، دودھ ، مونگ پھلي ، مچھلي ، گندم ، چاول)کے ساتھ جسم ميں داخل ہوسکتے ہيںيا پھر تزريقي صورت (دوائياں ، شہد کي مکھي کا ڈنک)ميں واردِ جسم ہوسکتے ہيں- اس کا مطلب يہ ہے کہ بني نوع انسان کو مختلف ذريعوں سے حساسيے کے ساتھ واسطہ پڑتاہے اور ايک فرد کو ايک چيز يا پھر ايک سے زيادہ چيزوں سے حساسيت ہوسکتي ہے-غذا کي عدم برداشت اور غذا سے حساسيت دو مختلف باتيں ہيں- غذا کے حساسيت ميں ہمارا نظامِ مدافعت اپنا ردّعمل ظاہر کرتاہے جبکہ غذا کي عدم برداشت ميں ايسا نہيں ہوتا-

 

حسا سيت کي علامات:

کسي چيز سے حساسيت شروع ہوتے ہي جلد ميں سوزش اور کھجلي شروع ہوتي ہے- جلد کا رنگ سرخي مائل ہوجاتاہے يا سرخ رنگ کے دھبے نمودار ہوتے ہيں-باربار چھينکنا ، ناک کا مسلسل بہنا يا بند ہونا ، عضلات اور جوڑوں کا درد ، سانس لينے ميں دشواري ،گھٹن ، نکھ اور ناک ميں کھجلي ، دردِسر،ورم والتہاب، اسہال واستفراغ حساسيت کي علامات ميں شامل ہيں-

حساسيت کے دوران اِن علامات ميں سے ايک يا ايک سے زيادہ سے واسطہ پڑسکتاہے اور حساسيت سے جو ردعمل ہوتاہے وہ تبِ کا ہي  چنبل اور پتي کے علاوہ دمے کي شکل اختيار کرليتاہے- علائم کا ظاہر ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ حساسيت جسم کے کس حصے ميں شروع ہوئي ہے (جيسے جلد، ناک ، نکھ يا معدہ يا انتڑيوں ميں)'

''سردي زکام'' اور حساسيت ميں کيا فرق ہے ؟ اکثر بيمار حساسيت ميں مبتلا ہونے کے باوجود بھي اپنے علائم کو زکام سے تعبير کرتے ہيں-اگر حساسيت کا بروقت مناسب اور موزوں علاج نہ کيا گيا توانسان دمّہ، ناک کے ورم يا کان کي عفونت جيسي پيچيدگيوں ميں مبتلا ہو سکتاہے ، اس لئے حساسيت اور ''زکام '' ميں فرق کرنابے حد ضروري ہے-زکام ميں بخار بھي ہوسکتاہے مگرخالص حساسيت ميں کبھي بخار نہيں ہوتاہے-

حساسيت ميں مبتلا افراد کي ناک اور نکھوں ميں خارش ہوتي ہے جبکہ ''سردي اور زکام ''ميں ايسا نہيں ہوتا-

زکام کے علائم سات سے دس دن تک رہتے ہيں جبکہ حساسيت ہفتوں ، مہينوں يا برسوں تک جاري رہ سکتي ہے-

اگر ناک کا بہنا يا بند ہو نا ہر سال ايک مخصوص موسم ميں مقررہ ايام ميں شروع ہوتاہو تو يہ حساسيت ہے-حساسيت کي وجہ سے ناک کي اندروني تہوں ميں ورم اور التہاب پيدا ہونے سے جراثيموں اور وائرسوں کے لئے راہ ہموار ہوتي ہے- اسلئے حساسيت ميں مبتلا افراد زکام کھانسي اور نظام تنفس کے ديگر حصوں کے انفکشن ميں مبتلا ہوجاتے ہيں-

"جاری ہے"


متعلقہ تحریریں:

دماغ کو ہر عمر ميں تيز رکھنے کے 10 بہترين طريقے

تناۆ اور موٹاپا