• صارفین کی تعداد :
  • 6512
  • 8/26/2013
  • تاريخ :

جانوروں کا گھر اور خرگوش

جانوروں کا گھر اور خرگوش

نیا مکان(حصّہ اوّل)

نیا مکان (حصّہ دوّم)

ہر گزرنے والا مينار کو گردن اٹھا کر ديکھتا پھر خرگوش سے پوچھتا، "ارے يہ مينار کس لئے بنا رہے ہو؟"

ليکن خرگوش کو ايسي باتوں کا جواب دينے کي فرصت نہيں تھي- وہ سر جھکاۓ ٹھکا ٹھک ٹھکا ٹھک کيليں ٹھوکتا رہتا- تمام جانور اس کے گرد جمع ہوکر چلاتے، ليکن وہ کسي بات کا جواب نہ ديتا-

آخر مينار مکمل ہوگيا- تب خرگوش نے اطمينان کا سانس ليا اور بولا، "اب کوئي مجھے پکڑ کر دکھاۓ-"

پھر اس نے اپني بيگم سے کہا، "کيتلي چولہے پر رکھ کر چاۓ بناۆ اور ديکھو تم سے جو کہا جاۓ، وہ کرنا اور جو نہ کہا جاۓ، وہ ہرگز مت کرنا-"

پھر اس نے اپني کرسي چھجے پر بچھا دي اور بيٹھ کر سڑک کا نظارہ کرنے لگا-

جلد ہي يہ خبر سب جگہ پھيل گئي کہ بھيا خرگوش کا مينار مکمل ہوگيا ہے- بہت سے جانور مينار کے گرد جمع ہو گئے اور گردنيں اٹھا اٹھا کر ديکھنے لگے، ليکن خرگوش سب سے بے تعلق ہوکر سگريٹ پيتا رہا- کہيں سے کچھوا بھي ادھر آ نکلا- وہ ديکھتے ہي سمجھ گيا کہ خرگوش ضرور کوئي نيا گل کھلانے والا ہے- اس نے چيخ کر کہا، "ارے بھيا خرگوش، تم وہاں بيٹھے کيا کر رہے ہو؟"

خرگوش نے نيچے جھک کر ديکھا اور بولا، "آخاہ کچھوے بھيا ہيں! آداب عرض ہے- نيچے کھڑے کيا کررہے ہو؟ اوپر آجاۆ نا!"

کچھوا بولا، "ميں کيسے آ سکتا ہوں؟ کوئي راستہ تو مجھے نظر نہيں آرہا ہے-"

خرگوش بولا، "ميں رسي لٹکاۓ ديتا ہوں- تم مضبوطي سے تھام لينا- ميں تم کو اوپر کھينچ لوں گا-"

کچھوے مياں نے پہلے تو رسي کي مضبوطي کو پرکھا پھر اسے اپنے منہ ميں دبا ليا-

خرگوش نے کچھوے کو اوپر کھينچ ليا اور اسے اپنے قريب ہي ايک کرسي پر بٹھا کر بڑي محبت سے اسے ليموں کا شربت اور نمکين بسکٹ پيش کئے- ادھر نيچے کھڑے ہوۓ سب جانور للچانے لگے اور دل ميں سوچنے لگے کہ کاش وہ بھي اوپر جائيں اور خرگوش کے مہمان بنيں- بھيڑيے سے نہ رہا گاچ- وہ چلا کر بولا، "بھيا خرگوش، تم اوپر مزے سے تو ہونا؟ کوئي تکليف تو نہيں ہے تم کو؟"

خرگوش نے نيچے جھکا اور بولا، "آخاہ بھيڑيے بھيا، سلام عرض کرتا ہوں! نيچے کھڑے کيا کررہے ہو؟ اوپر آۆ نا!"

بھيڑيا بولا، "کيسے آۆں؟ کوئي راستہ تو نظر نہيں آرہا ہے-"

خرگوش بولا، "يہ رسا لٹکا رہا ہوں- تم اسے پکڑ کر اوپر چڑھ آۆ-"

خرگوش نے رسا لٹکا ديا اور چيخ کر اپني بمگ- سے بولا، "جلدي سے سموسے بناۆ- ہمارا دوست اوپر آ رہا ہے اور چاۓ کي کيتلي مجھے ديتي جاۆ-"

خرگوش زور زور سے چلانے لگا، "ارے نيک بخت ديکھ کر چلو- کہيں يہ چاۓ بھيڑيے پر نہ گرا دينا- کل ہي تو اس نے سمور کا کوٹ دھلوايا ہے-"

اتنا تو بھيڑيے نے سنا اس کے بعد اچانک اس پر کھولتے ہوۓ پاني کي ديگچي گري- بھيڑيے کے منہ سے ايک زور کي چيخ نکلي- رسي اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئي اور وہ دھڑام سے زمين پر گر پڑا-

اوپر سے خرگوش چيخ کر بولا، "معاف کرنا بھيا! بيگم کے ہاتھ سے کيتلي چھوٹ گئي تھي- تمہارا کوٹ تو نہيں جلا ہے؟"

بے چارا بھيڑيا بڑي حسرت سے اپنے کوٹ کو ديکھ رہا تھا جو جگہ جگہ سے جل گيا تھا- کچھوا اور خرگوش بھيڑيے کو اس حال ميں ديکھ کر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے-(ختم)

 

متعلقہ تحریریں:

چڑياں يکجان ہو جاتي ہيں

مجرم نے توتے کي وجہ سے سب کچھ اگل ديا