• صارفین کی تعداد :
  • 2684
  • 8/1/2011
  • تاريخ :

بچوں کو منظم کيسے کيا جائے؟

بچّہ
اکثر والدين رات ہونے پر يہ محسوس کرتے ہيں کہ انہوں نے سوائے بچوں سے لڑائي جھگڑے کے اور کوئي کام نہيں کيا- شايد ہي کوئي ايسا گھر ہوگا جہاں بچوں اور والدين کے درميان روزانہ کسي نہ کسي بات پر گھر کا ماحول تلخ نہ ہوتا ہو، خصوصاً ان گھروں ميں جہاں بچے ذرا بڑے ہوں، وہاں اس قسم کي باتيں معمول بن جاتي ہيں- بظاہر يہ بہت معمولي نوعيت کي باتيں ہوتي ہيں ليکن اس سے بعض اوقات بچوں اور والدين کے درميان غير مرئي سا کھنچاو پيدا ہو جاتا ہے-

عام طور پر کھانے اور سونے کے اوقات روزانہ مسئلہ کھڑا کر ديتے ہيں- والدين کي خواہش اور کوشش ہوتي ہے کہ بچے بروقت کھانا کھائيں اور وقت پر سو جائيں ليکن اس معاملے ميں بچوں کي جانب سے مسلسل غفلت کا مظاہرہ کيا جاتا ہے- بچے ان معاملات ميں خود کو منظم نہيں کر پاتے- خصوصاً 6 سے 9 سال کے اکثر بچے اپنے معمولات کا اوقات کار طے کرنے ميں ذمہ داري کا مظاہرہ نہيں کرتے، اسکول کے کام پر توجہ نہيں ديتے، دوستوں ميں زيادہ وقت گزارتے ہيں اور گھر دير سے آتے ہيں- والدين کے لئے يہ تمام چيزيں پريشاني کا باعث بنتي ہيں اور ان تمام معاملات کے ساتھ خوش اسلوبي سے نمٹنا خاصا مشکل کام نظر آتا ہے- بچوں کے گھر سے باہر کھيلنے کے دوران بھي والدين کو ان کي خيريت سے متعلق تشويش لاحق رہتي ہے-

بچوں کي والدين سے لڑائي کا دلچسپ پہلو يہ ہے کہ يہ گھر کي چارديواري تک ہي محدود ہوتي ہے- تاہم اس قسم کے معاملات سے نمٹنے کا طريقہ کار مختلف ہوتا ہے- يعني والدين بچوں کي ان حرکات پر مختلف ردِعمل کا اظہار کرتے ہيں- کچھ صرف پريشان ہونے پر اکتفا کرتے ہيں اور بعض پر بے بسي کي کيفيت طاري ہوتي ہے اور کچھ والدين تشدد پر اتر آتے ہيں اور عموماً بچوں سے الجھنے کا آغاز ناشتے کي ميز سے ہي ہوجاتا ہے-

صبح کا وقت بچوں اور بڑوں دونوں کے لئے نہايت اہميت کا حامل ہے- کچھ بچے ’’رات کے لوگ‘‘ ثابت ہوتے ہيں- وہ رات کو دير سے سوتے ہيں اور لازمي طور پر صبح کو دير سے بيدار ہونا پسند کرتے ہيں- ظاہر ہے يہ صورتحال والدين کے لئے پريشاني کا باعث ہوتي ہے- وہ انہيں وقت پر اسکول بھيجنے کے خواہاں ہوتے ہيں تاہم والدين کو يہ بات ذہن نشين کر ليني چاہيے کہ بچوں کے لئے 8 سے 11 گھنٹے کي نيند ضروري ہے- وہ انہيں جگاتے وقت اس بات کا خيال رکھيں کہ کيا بچہ اپني نيند پوري کэکا ہے؟ اس کے علاوہ بچہ کو جلد سونے کے لئے تيار کريں اور اسے اس قسم کے مشاغل سے دور رکھيں جس ميں اس کے رات دير تک جاگنے کا احتمال ہو-

دراصل بچہ سونے کا پہلے عادي ہوتا ہے اس کے بعد اسے اسکول بھيجا جاتا ہے- چنانچہ شروع شروع ميں بچے کو اس ضمن ميں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے- اسے اسکول کي نئي ذمہ دارياں بوجھ لگتي ہيں اور اسکول جانے کا عمل تھکا دينے کي حد تک تکليف دہ محسوس ہوتا ہے- يہاں والدين کو چاہيے کہ وہ اسے اعتماد ديں، اسے بتائيں کہ اسکول جانا اور تعليم کا حصول اس کے لئے کتنا ضروري ہے- اسے بتائيں کہ ہم نہيں چاہتے تمہيں خود سے دور کريں، تمہيں جلدي اٹھائيں ليکن ہميں تمہاري بہتري کے لئے ايسا کرنا پڑتا ہے-

عام طور پر ايسا بھي ہوتا ہے کہ باپ رات کو دير سے گھر آتے ہيں اور بچے ان سے کھيلنا پسند کرتے ہيں، خصوصاً ايسے بچے جن کا جھکاو باپ کي طرف زيادہ ہو- لہٰذا لازمي طور پر بچے صبح دير سے اٹھيں گے- بچے کو اسکول ميں داخل کرانے سے دو تين ماہ قبل اگر وہ رات کو دير سے سونے کا عادي ہے تو اس کي عادت کو بدلنے کي کوشش کريں- اس طرح وہ آنے والے وقت کے لئے خود کو تيار کرے گا-

ملازمت پيشہ خواتين کے لئے بھي صبح بچوں کو وقت پر تيار کر کے اسکول بھيجنا اور خود بھي وقت پر دفتر جانا خاصا مشکل واقع ہوتا ہے- 4 اور 5 سال کي عمر کے بچے وقت کي اہميت سے ناآشنا ہوتے ہيں- وہ والدين کي جانب سے ’’جلدي کرو‘‘ کا شور مچانے کے باوجود جلدي کرنے پر تيار نہيں ہوتے بلکہ دانستہ چھوٹے چھوٹے بہانے بناتے ہيں- جيسے ميں ہرے رنگ کي نہيں کالي قميض پہنوں گي يا ميں اپنا نيا والا لنچ باکس لے کر جاوں گي- ميري پينسل ختم ہوچکي ہے ابھي لاکر ديں وغيرہ وغيرہ-

اس قسم کے معاملات سے نمٹنے کے لئے بہتر ہے کہ آپ ان کي تياري کا پروگرام دو مراحل ميں تقسيم کرليں- ان سے پوچھيں کہ کل آپ کو کس چيز کي ضرورت پڑسکتي ہے اور يہ کہ آپ کل کونسا لباس پہننا پسند کريں گي- اگر آپ کا پروگرام کسي پاъي ميں جانے کا ہے تو ايک روز پہلے لباس کا تعين آپ کا وقت بچا دے گا اور اسکول جانے والے بچے لازماً يونيفارم ہي پہنيں گے- ہوسکے تو انہيں شام کو ہي نہلا ديں- اس طرح صبح اسکول جاتے وقت آپ کے چند قيمتي منٹ بچ سکتے ہيں-

صبح کا وقت ايسا نہيں ہے کہ آپ بچوں کو منظم کرنے کا درس ديں اور نہ آپ اس دوران اصرار کريں- آپ انہيں اسکول چھوڑتے وقت خاموش رہيں تو زيادہ بہتر ہے- صبح کے وقت چھوٹي چھوٹي باتوں پر آپ کا شور مچانا نہ صرف آپ کے لئے بلکہ بچوں کے لئے بھي مفيد ثابت نہيں ہوگا- اس طرح سارا دن آپ کا بدمزگي کي نذر ہوسکتا ہے اور آپ ممکن ہے پورا دن چڑچڑے پن کا شکار رہيں- لہٰذا بہت بہتر ہے کہ صبح کے وقت آپ کم سے کم گفتگو کريں- ياد رکھيں صبح کا پريشان کن آغاز شام کا پريشان کن اختتام بھي ثابت ہوسکتا ہے-

تحریر: نرجس زبير


متعلقہ تحريريں:

تمام والدين کي  آرزو (حصّہ سوّم)

تمام والدين کي  آرزو ( حصّہ دوّم )

اسلامي تمدن ميں تعليم و تربيت کے مقامات

تمام والدين کي آرزو

سيرت معصومين عليھم السلام ميں تعليم و تربيت