1
اگر انسان کسی کے ساتھ اس طرح کرے کہ پھل دار درخت کہ جن کے پھل کا یہ مالک ہے یا پھلوں کا اختیار اس کے ہاتھ میں ہے۔ مدت معین تک کسی کے سپرد کردے کہ وہ ان کی تربیت کرے انہیں پانی دے اور جتنی مقدار طے کریں اتنا پھل وہ لے لے اور اس معاملہ کو مساقات کہتے ہیں۔
|
2
معاملہ مساقات ان درختوں میں صحیح نہیں ہے جو بید، چنار کی طرح پھل نہ دیتے ہوں البتہ مہندی کا درخت کہ جس کے پتوں سے یا وہ درخت کہ جس کے پھولوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اس میں کوئی اشکال نہیں۔
|
3
معاملہ مساقات میں یہ ضروری نہیں کہ صیغہ پڑھا جائے بلکہ اگر درختوں کا مالک مساقات کے ارادہ سے درخت اس کے سپرد کردے اور جو شخص کام کرتاہے وہ اسی ارادہ سے اپنی تحویل میں لے لے تو معاملہ صحیح ہے ۔
|
4
مالک اور جو شخص درختوں کی تربیت اپنے ذمہ لے رہا ہے دونوں بالغ و عاقل ہوں اور انہیں کسی نے مجبور نہ کیا ہو اور حاکم شرع نے انہیں اپنے مال میں تصرف کرنے سے روکا بھی نہ ہو بلکہ اگر بالغ ہونے کے وقت وہ سفیہ ہوں تو اگرچہ حاکم شرع نے انہیں تصرف سے منع نہ کیا ہو تب بھی ان کا معاملہ صحیح نہیں ہے۔
|
5
مدت مساقات معلوم ہونی چاہیے اور اگر اس کی ابتداء معین کرلیں اور اس کی انتہا اس وقت کو قرار دیں کہ جب اس سال کے پھل توڑ لئے جاتے ہیں تو بھی صحیح ہے۔
|
6
ہر ایک کا حصہ مشاعی (نسبتی) طور پر مثلاً محصولات کا نصف یا تیسرا حصہ یا اس طرح کا کوئی ہونا چاہیے اور اگر یہ قرار داد کرلیں کہ مثلاً سو من مالک کا مال ہے اور بقیہ کام کرنے والے کا ملک ہوگا تو معاملہ باطل ہے۔
|
7
معاملہ مساقات کی قرار داد پھل کے ظاہر ہونے سے پہلے ہونی چاہیے اور اگر پھل ظاہر ہونے کے بعد اور پک جانے سے پہلے قرار داد کرلیں تو اگر کوئی ایسا کام جو درختوں کی تربیت کے لئے ضروری ہے باقی ہو مثلاً سیراب کرنا تو معاملہ صحیح ہے ورنہ محل الامکان ہے۔ اگرچہ میوہ چننے اور اس کی حفاظت کرنے کی ضرورت بھی ابھی باقی ہو۔
|
8
خربوزہ، کھیرا اور اس قسم کے پودوں میں معاملہ مساقات صحیح نہیں ہے۔
|
9
وہ درخت جو بارش کے پانی یا زمین کی تری سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اسے سیراب کرنے کی ضرورت نہیں اگر دوسرے کاموں کا مثلاً کھودنے اور کھاد دینے کا محتاج ہو تو اس میں معاملہ مساقات صحیح ہے۔ البتہ اگر یہ کام ان کے زیادہ ہونے یا پھلوں کے اچھے ہونے میں اثر انداز نہ ہوتے ہوں تو پھر معاملہ مساقات اشکال رکھتا ہے۔
|
10
وہ افراد جنہوں نے معاملہ مساقات کیا ہے وہ ایک دوسرے کی رضامندی کے ساتھ معاملہ کو فسخ کرسکتے ہیں اور اسی طرح اگر صیغہ مساقات کے ضمن میں شرط کریں کہ دونوں یا ان میں سے ایک معاملہ کو فسخ کرنے کا حق رکھتا ہے تو قرار داد کے مطابق معاملہ کے فسخ کرنے میں کوئی اشکال نہیں بلکہ اگر معاملہ میں کوئی شرط قرار دیں اور اس پر عمل نہ ہوا ہو تو جس کے نفع کے لئے شرط کی گئی تھی وہ معاملہ کو فسخ کرسکتا ہے۔
|