• صارفین کی تعداد :
  • 2944
  • 12/25/2010
  • تاريخ :

اقبال کے کلام میں کربلا (حصّہ دوّم)

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال

جاوید نامہ (۱۹۳۲ء) میں سلطان شہید (ٹیپو سلطان) کا ذکر کرتے ہوئے اسے ”وارث جذب حسین “ کہا ہے۔ پس چہ باید کرد (۱۹۳۶ء) میں بھی ”فقر“ اور ”حرفے چند باامت اسلامیہ“ کے ذیل میں حسین کا حوالہ آیا ہے۔

فقرِ عریاں گرمی بدروحنیں

فقرِ عریاں بانگ تکبیر حسین

ارمغان حجاز (۱۹۳۸) میں فرماتے ہیں:

اگرپندے    ز   درویشے   پذیری

ہزار   امت  بمیرد  تو  نہ  میری

بتولے باش وپنہاں شوازیں عصر

کہ   در  آغوش  شبیرے  بگیری

آخری مجموعہ ارمغان حجاز جو اقبال کے انتقال کے کچھ ماہ بعد ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ اس شعر پر ختم ہوتا ہے۔

ازاں کشت خرابے حاصلے نیست

کہ آب ازخون شبیرے ندارد

!

اقبال فارسی میں بھی جو کچھ کہتے تھے‘ پوری اردو دنیا میں اس سے ارتعاش پیدا ہوتا تھا۔ رثائی ادب سے ہٹ کر نئے تناظر میں اس تاریخی حوالے کی اہمیت کا ذکر اردو دنیا کے لیے ایک بالکل نیا موضوع تھا۔ اقبال کی اردو شاعری میں اس موضوع کی گونج پہلی بار بال جبریل (۱۹۳۵ء) کی غزلوں اور نظموں میں سنائی دیتی ہے۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے کلام کے پیش نظر اقبال کے یہاں حسین ‘ شبیر‘ مقام شبیری‘ اسوہ شبیری‘ باقاعدہ تھیم کا درجہ رکھتے ہیں۔ ذیل کے اردو اشعار اس سلسلے میں بے حد اہم ہیں۔ ان کو اس رحجان کے اولین سنگ میل سمجھنا چاہئے۔ نئے نو آبادیاتی تناظر میں ان کی معنویت غور طلب ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ان اشعار نے بعد کے شعرا کے لیے اس تاریخی حوالے کے نئے علامتی ابعاد کو روشن نہ کیاہوگا۔

حقیقت     ابدی    ہے    مقام    شبیری

بدلتے  رہتے  ہیں  انداز  کوفی و شامی

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستاں حرم

نہایت اس کی حسین‘ ابتدا ہے اسماعیل

اقبال کے اس تخلیقی رویے کا اثر بعد میں آنے والے شاعروں پر رفتہ رفتہ مرتب ہوا‘ اوریوں آہستہ آہستہ شعری اظہار کی ایک نئی راہ کھل گئی۔ بال جبریل کی مختصر نظم ”فقر“ کا نقطہ عروج بھی کئی فارسی نظموں کی طرح سرمایہ شبیری ہی ہے۔

اک   فقر  سکھاتا  ہے  صیاد  کو  نخچیری

اک  فقر  سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری

اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری

اک  فقر  سے  مٹی  میں  خاصیت اکسیری

اک  فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری

میراث      مسلمانی‘     سرمایہ     شبیری

لیکن انتہا درجہ کی حسن کاری اور حد درجہ شدت احساس کے ساتھ یہ حوالہ بال جبریل کی شاہکار نظم ”ذوق وشوق“ کے دوسرے بند میں ابھرتا ہے۔ اختتامی بیت میں تطبیق‘ تصورعشق سے کی گئی ہے جو اقبال کامرکزی موضوع ہے۔

صدق خلیل بھی ہے عشق‘ صبر حسین بھی ہے عشق

معرکہ وجود میں‘ بدروحنین بھی ہے عشق

لیکن اسی بند کا یہ شعر:

قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں

گرچہ ہے تاب دارا بھی گیسوئے دجلہ و فرات

بالخصوص اس کا پہلا مصرع تو ضرب المثل کا درجہ احتیار کرچکا ہے۔ شاعر تڑپ کر کہتاہے کہ ذکر عرب عربی مشاہدات سے اور فکر عجم عجمی تخیلات سے تہی ہوچکے ہیں۔ کاش کوئی حسین ہو جو زوال و غفلت کے اس پرآشوب دور میں حریت و حق کوشی کی شمع روشن کرے۔

رموز بے خودی ۱۹۱۸ء میں بال جبریل ۱۹۳۵ء میں اور ارمغان حجاز ۱۹۳۸ء میں منظر عام پر آئیں۔ لگ بھگ اسی زمانے میں جوش ملیح آبادی کے یہاں بھی شہادت حسین کا حوالہ سے انقلابی ابعاد کے ساتھ لگتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ یوں تو جوش ملیح آبادی نے ذاکر سے خطاب اور سوگواران حسین سے خطاب“ جیسی نظمیں بھی لکھیں جن کا مقصد اصلاح تھا‘ لیکن شہادت حسین کی انقلابی معنویت کی طرف اشارے انہوں نے ”رثائی ادب“ کے دائرے ہی میں رہ کر کیے۔ شعلہ و شبنم میں اس نوعیت کا جتنا کلام ہے‘ اس کے بارے میں خود جوش نے وضاحت کردی ہے کہ یہ تمام نظمیں ۱۹۲۷ء سے پہلے کی ہیں جوش ان منظومات کو بھلے ہی زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوں‘ کردار حسین کی انقلابی معنویت کو روشن کرنے میں جوش کی شاعری نے نہایت اہم خدمات انجام دیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ان کا پہلا مرثیہ جو ”آواز حق“ کے نام سے شائع ہوا‘ اور جس کے آخری بند میں واضح طور پر جوش نے صدیوں کی تاریخ کا سلسلہ اپنے عہد کی سامراج دشمنی سے ملا دیا‘ ۱۹۱۸ء کی تصنیف ہے۔ اقبال کی شہرہ آفاق تصنیف رموزبے خودی بھی (جس سے ہم درمعنی حریت اسلامیہ و سر حادثہ کربلا اور متعدد دوسرے حوالے پیش کرچکے ہیں ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کا اور تحریک خلافت کے تقریباً آغاز کا زمانہ تھا۔ جوش کا یہ بند ملاحظہ ہو جس میں وہ دعوت دیتے ہیں کہ اسلام کا نام جلی کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہر فرد حسین ابن علی ہو۔

اے   قوم!   وہی   پھر  ہے  تباہی  کا  زمانہ

اسلام    ہے   پھر   تیر   حوادث   کا   نشانہ

کیوں چپ ہے اسی شان سے پھر چھیڑ ترانہ

تاریخ  میں  رہ  جائے  گا  مردوں  کا  فسانہ

مٹتے   ہوئے   اسلام   کا  پھر  نام  جلی  ہو

لازم   ہے  کہ  ہر  فرد  حسین  ابن  علی  ہو

واضح رہے کہ ”آواز حق“ کو شعلہ و شبنم میں شامل کرتے وقت جو ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی جوش نے اعتذار کا لہجہ اختیار کیا اور یہ نوٹ درج کیا ”اس نظم کو صرف اس نظر سے پڑھا جاسکتا ہے کہ یہ آج سے اٹھارہ برس پیشتر کی چیز ہے۔

یوں تو جوش ملیح آبادی نے نو مرثیے لکھے جنہیں ضمیر اختر نقوی نے مرتب کرکے شائع کر دیا ہے (جوش ملیح آبادی کے مرثیے لکھنو ۱۹۸۱ء) لیکن آزادی سے پہلے ”آواز حق“ کے علاوہ جو ش کا صرف ایک اور مرثیہ ”حسین اور انقلاب“ ملتا ہے جو ۱۹۴۱ء کی تصنیف ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے انقلابی خیالات کا اظہار اور بھی کھل کر کیاہے اور کئی بندوں میں حسین کو حریت و آزادی کے مظہر کے طور پر پیش کیا ہے۔ چالیسویں بند کی بیت ہے۔

عباس   نامور   کے   لہو   سے   دُھلا   ہوا

اب   بھی   حسینیت   کا  علم  ہے  کھلا  ہوا

***

اس    کے   بعد   کچھ   بند   ملاحظہ   ہوں۔

یہ  صبح  انقلاب  کی  جو  آج  کل ہے ضو

یہ  جو  مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو

یہ  جو  چراغ  ظلم  کی  تھرا  رہی  ہے  لو

در  پردہ  یہ  حسین  کے  انفاس  کی ہے رو

حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو

یہ   بھی  اسی  جری  کی  ہے  آواز  دوستو

پھر   حق   ہے   آفتاب  لب  بام  اے  حسین

پھر  بزم  آب  وگل میں ہے کہرام اے حسین

پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے حسین

پھر   حریت   ہے   مورد  الزام  اے  حسین

ذوق     فساد     ولولہ    شر    لیے    ہوئے

پھر عصر نو کے شمر ہیں خنجر لیے ہوئے

مجروح  پھر  ہے  عدل  و  مساوات کا شعار

اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار

پھر   نائب   یزید   ہیں  دنیا  کے  شہر  یار

پھر  کربلائے  نو  سے ہے نوع بشر دوچار

اے    زندگی    جلال    شہ    مشرقین   دے

اس  تازہ  کربلا  کو  بھی  عزم  حسین  دے

آئین  کشمکش  سے ہے دنیا کی زیب و زین

ہرگام  ایک  بدر  ”ہر ہو سانس اک ”حنین“

بڑھتے  رہو  یو  نہیں  پے  تسخیر مشرقین

سینوں میں بجلیاں ہوں زبانوں پہ ”یاحسین“

تم   حیدری   ہو‘   سینہ  اژدر  کو  پھاڑ  دو

اس   خیبر   جدید   کا   در   بھی  اکھاڑ  دو

***

اس  مرثیہ  کا  خاتمہ  اس  بیت  پر ہوا ہے۔

دنیا     تری     نظیرشہادت     لیے    ہوئے

اب  تک  کھڑی  ہے  شمع ہدایت لیے ہوئے

***

جوش  ملیح  آبادی  نے اسی زمانے میں کہا

 

انسان    کو    بیدار    تو    ہو    لینے    دو

ہرقوم   پکارے   گی   ہمارے   ہیں   حسین

اس سلسلے میں جوش کے ایک سلام کے یہ شعر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں‘ جس میں عہد نو کی صاف گونج موجود ہے۔

محراب  کی  ہوس  ہے  نہ منبر کی آرزو

ہم  کو  ہے  طبل  وپرچم ولشکر کی آرزو

اس آرزو سے میرے لہو میں ہے جزرومد

شت   بلا  میں  تھی  جو  بہتر  کی  آرزو

ان مثالوں سے ظاہر ہے کہ جوش رثائی ادب کی کلاسیکی روایت سے جو مذہبی مقصد کے لیے مخصوص تھی‘ سیاسی نوعیت کا کام لے رہے تھے‘ اس پر کچھ اعتراض بھی ہوئے۔ باایں ہمہ اس کا اعتراف بھی کیا گیا کہ ”جوش نے مرثیے میں انقلاب اور قومی آزادی کے تصور کو رواج دیا“ تاہم رثائی ادب کی اپنی حدود تھیں‘ جن کا احترام مرثیہ گو شعرا کے لیے واجب تھا۔ جوش کی البیلی شخصیت کی بات ہی اور تھی۔ وہ اپنی رومانیت اور بغاوت کی وجہ سے ہر چیز کو نبھالے جاسکتے تھے۔ دوسروں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ جمیل مظہری نے کچھ کوشش کی لیکن ان سے چلا نہیں‘ اور اس کا چلنا ممکن بھی نہیں تھا۔ ان کوششوں کے برعکس‘ اقبال اور محمد علی جوہر نے نظم اور غزل میں کردار حسین کی عظمت کے بلاواسطہ اور بالواسطہ تخلیقی اظہار کی جو راہ دکھائی تھی۔ اس نے آنے والوں کے لیے ایک شاہراہ کھول دی۔ اور بعد کی اردو شاعری میں اس رجحان کا فروغ دراصل انہیں اثرات کے تحت ہوا۔


متعلقہ تحریریں:

احمد ندیم قاسمی کا 94واں یوم پیدائش

سُرخ ٹوپی (حصّہ ششم)

سُرخ ٹوپی (حصّہ پنجم)

سُرخ ٹوپی (حصّہ چهارم)

سُرخ ٹوپی (حصّہ سوّم)

سُرخ ٹوپی (حصّہ دوّم)

سُرخ ٹوپی

مفکر پاکستان اور فلسفی شاعرعلامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا یوم پیدائش

اُردو، ایک تہذیب یافتہ زبان ہے

ساحر کا سب سے بڑا اعزاز عوامی مقبولیت تھی