• صارفین کی تعداد :
  • 1083
  • 11/15/2010
  • تاريخ :

سُرخ ٹوپی (حصّہ دوّم)

کتاب

’’ اسے چھٹی نہیں ملنے کی۔ وہ ابھی رنگروٹ ہے!‘‘ اس نے گرد آلود کپڑے کو صابن کے میلے جھاگ میں بھگوتے ہوئے کہا۔ لیکن اس کا دل پکار رہا تھا،’’ پگلی رنگروٹوں کو بھی چھٹی مل سکتی ہے اور وہ تو اب رنگروٹی پاس کر چکا ہو گا۔‘‘ اور جب اس نے اس درّے کی طرف دیکھا جہاں ابھی تک ایک کوّا نظر آیا جس کے سر پر ہاتھ بھر لمبا طرہ تھا اور جس کی پگڑی کا رنگ گہرا نارنجی تھا۔ جس کی مونچھیں بچھو کے تنے ہوئے ڈنگ کی طرح سرخ گالوں پر کنڈلی مارے بیٹھی تھیں اور جس کے کپڑوں سے شوں شاں کی آوازیں آتی تھیں ۔ جس کے ہاتھ میں گلابی ریشم کا ایک بہت رومال تھا ۔ اور کانوں میں عطر کی پھریریاں۔ درّے کی ہوا اس کے وجود سے عطر کی لپٹیں اڑاتی اس کے گھر پر منڈلانے لگی۔ اچانک ایک کوا ’’ سائیں ‘‘ سے اس کے صحن پر سے تیر کی طرح گزر گیا اور اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر، کپڑے کو دونوں ہاتھوں سے نچوڑتے اور مروڑتے ہوئے کہا ۔’’ غارت ہو جائے ان موئے کوّؤں کی نسل ۔ دُھلا دُھلایا کپڑا غارت کر ڈالا ۔ موئے ضدی ، بخیل!‘‘

اِن مختصر میٹھے خوابوں میں بسنے والی مہری اِس گھر میں اکیلی رہتی تھی۔ کوئی دس مہینے ہوئے اس کی شادی ہوئی تھی۔ گاموں کو اس نے شادی کے بعد پہلی مرتبہ دیکھا ۔ پندرہ بیس دن اکھٹے گزارے ۔ کھل کر بات کی نوبت ہی نہ آئی ۔ ہر بات میں جھینپ اور ہر حرکت میں حجاب وہ پانی مانگتا تو یوں معلوم ہوتا جیسے یونہی بیٹھے بیٹھے کسی گیت کا ایک بول گنگنا دیا ! اور وہ بات کرتا تو جیسے شہد کی مکھی کسی مرتبان میں بھنبھنا رہی ہے ! اور جس روز ان کے گاؤں میں بڑا صاحب آیا اور گاموں کے اُبھرے ہوئے پٹھوں، چوڑے چکلے سینے اور گٹھے ہوئے جسم کو دیکھ کر بولا۔’’ ویل تم لوگ اچا جوان ہے۔‘‘ تو اس روز مہری اپنی اچھی اچھی سہیلیوں سے بھی نہ بولی ۔ اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ان چھوکریوں سے بہت بلند ہے جن کے گھر والے تو شہروں میں مزدوریاں کرتے ہیں یا کھیتوں میں دن بھر ہل چلاتے ہیں اور رات گئے گھر آ کر سوکھی روٹیاں نگل کر اور کھاٹوں پر دراز ہو کر ایسے ایسے، وحشت ناک خراٹے بھرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے ہوائی جہازوں کا ایک غول گڑگڑاتا جا رہا ہے !

اس روز گاموں کی گردن بھی کچھ اکڑ سی گئی اور چوپال پر سرحدی حقے پر لپٹے ہوئے میلے چھیتھڑوں کو چھو کر بولا ۔’ ’بھئی شرم آتی ہے۔ ایسا غلیظ حقہ پیتے ہوئے ۔‘‘ اور چوپال والوں نے اسے یہ اعتراض کرنے میں حق بجانب سمجھا ۔ کیونکہ گوری جلد والے صاحب نے اس کی جسمانی صحت کو بہت سراہا تھا اور پھر اس نے گاموں سے جس گرم جوشی سے ہاتھ ملایا تھا اس سے سب لوگ واقف تھے۔ حتٰی کہ وہ لڑکیاں بھی واقف تھیں جو چھتوں پر، منڈیروں کی آڑ لئے صاحب بہادر کو گھورتی تھیں !


متعلقہ تحريريں:

اپنے دکھ مجھے دے دو

آگ کا دریا

بڈھا

چڑيل

روشنی

کپاس کا پھول

کپاس کا پھول (حصّہ دوّم)

کپاس کا پھول (حصّہ سوّم)

کپاس کا پهول (حصّہ چهارم)

کپاس کا پهول (حصّہ پنجم)