• صارفین کی تعداد :
  • 1325
  • 11/15/2010
  • تاريخ :

سُرخ ٹوپی (حصّہ چهارم)

کتاب

اور وہ ایلومینیم کا کٹورا اٹھا کر اس میں پانی ڈالتے ہوئے کہتی ۔’’ کہو تو شکر ڈال دوں۔‘‘

یہ سن کر گاموں کا رنگ سرخ ہو جاتا۔ اس کی رگوں میں تھرتھراہٹ دوڑ جاتی اور گھٹی ہوئی آواز میں جواب دیتا ۔’’ ڈال دے۔‘‘

کچی دیوار میں چھت کے قریب لوہے کی ایک زنگ آلود میخ سے سرخ رنگ کی ایک ٹوپی لٹکی رہتی تھی جس پر سفید کھدر کا بنا ہوا چاند ستارے کا نشان بھی تھا ۔ ایک روز مہری نے گاموں سے پوچھ ہی لیا کہ ’’ یہ ٹوپی کس کی ہے؟ کون پہنتا ہے؟ یہاں کیوں لٹک رہی ہے؟‘‘ اور گاموں نے جواب دیا ۔’’ یہ ایک بہت اچھے زمانے کی یاد دلاتی ہے مجھے۔ کچھ سال گزر ے ہمارے ملک پر ایک بہت اچھا وقت آیا تھا ہندو، مسلمان اور سکھ سب آپس میں گھل مل گئے تھے۔ اکٹھے بیٹھتے تھے کئی بار اکٹھے کھانا بھی کھا لیتے تھے۔ میں ان دنوں بچہ ہی تھا۔ لیکن ابا مجھے بتایا کرتے تھے کہ اس زمانے کو خلافت کا زمانہ کہتے ہیں ۔ ابا قصبے سے گتا خرید لائے اور اس پر سرخ کھدر چڑھا کر، سفید کھدر سے کٹا ہوا چاند ستارا ٹانک کر یہ ٹوپی بنائی اور میرے سر پر رکھ دی۔ ابا اور گاؤں کے دوسرے بزرگ لمبے لمبے جھنڈے ۔۔۔۔ کاندھوں پر رکھے گلیوں کے چکر کاٹتے اور ہم بچے ہاتھوں میں ہا تھ ڈال کر ان کے پیچھے پیچھے چلتے اور گایا کرتے تھے؛

انت الھادی انت الحق

لیس الھادی الا ھو

اور جب مہری نے گاموں سے پوچھا کہ اس کا مطلب کیا ہے تو وہ نہایت با وقار آواز میں بولتا ۔’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ نہ کرو، سچ بولو ، نمازیں پڑھا کرو اور بڑوں کا ادب کرو۔‘‘


متعلقہ تحريريں:

سُرخ ٹوپی (حصّہ چهارم)

اپنے دکھ مجھے دے دو

آگ کا دریا

بڈھا

چڑيل

روشنی

کپاس کا پھول

کپاس کا پھول (حصّہ دوّم)

کپاس کا پھول (حصّہ سوّم)

کپاس کا پهول (حصّہ چهارم)

کپاس کا پهول (حصّہ پنجم)