• صارفین کی تعداد :
  • 1465
  • 11/15/2010
  • تاريخ :

سُرخ ٹوپی (حصّہ ششم)

سُرخ ٹوپی

اس قسم کی دو چٹھیاں مہری کو پہنچیں اور گو وہ قرآن پاک کے سوا اور کچھ نہ پڑھ سکتی تھی، لیکن گاؤں کے مولوی جی نے جو بیک وقت مدرسے کے اول مدرس مسجد کے امام اور برانچ پوسٹ ماسڑ تھے، اسے جو کچھ پڑھ کر سُنایا ، اس نے اپنے دماغ میں محفوظ کر لیا۔ اس نے کسی کے آگے ان چٹھیوں کی بات تک نہ کی ۔ لیکن عام لوگوں کی زبان سے اس نے اپنے پردیسی سپاہی کے خط کے الفاظ سنے تو اسے مولوی جی پر بہت غصہ آیا اور یہ سن کر تو اس اس کے تعجب کی کوئی حد نہ رہی کہ نمبردار جی کل چوپال پر بیٹھے کہہ رہے تھے کہ گاموں بڑا بدمعاش ہے، ریشمی قمیصوں اور سنہرے جھمکوں کی باتیں بد معاش ہی خطوں میں لکھا کرتے ہیں ۔ اور گو مہری نمبردار کی ان باتوں کا مطلب نہ سمجھی، لیکن وہ ساری رات جاگتی رہی اور صبح اٹھ کر کپڑے دھونے بیٹھی تو کوّے نے اسے اِس قدر تنگ کیا کہ اس پر اپنا پرانا جوتا پھینکنے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑی ۔

بھلا ہو بوڑھی نائن کا وہ ہر ہفتے مہری کے ہاں جاتی اور اسے لون مرچ تیل اور صابن گاؤں کی دکانوں سے خرید کر دے جاتی اور پچھلے چند دنوں سے تو بلا ناغہ مہری کے پاس آنے جانے لگی تھی۔ گھنٹوں اس کے پاس بیٹھی رہتی اور کہتی ۔’’اتنی بڑی بڑی چیزیں نہ اٹھا یا کر بیٹی ۔ یہ اچھا نہیں ہوتا ۔‘‘

اور پھر ایک ہفتے کے بعد مہری کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ چاند سا چہرہ دیکھ کر اسے اپنا گاموں یاد آ گیا جو چھاؤنی کے بڑے بڑے کمروں میں دنیا کے اتنے بڑے واقعہ سے بے خبر گھومتا پھر رہا ہو گا۔ اس نے نائن کو چار پیسے دے کر گاموں کے نام ایک چٹھی لکھوائی کہ ننھے کا کیا نام رکھا جائے۔!

جب نائن اس کے پاس بیٹھی ایک سیپی میں ننھے کے لئے دوا تیار کر رہی تھی تو مہری کی نظر سرخ ٹوپی پر جا پڑی ۔ جس پر سفید کھدر سے کٹا ہوا چاند ستارا چمک رہا تھا ۔ اور پھر اس کے پہلو میں ننھا رونے لگا اور اچانک اسے ٹوپی کا مصرف معلوم ہو گیا ۔

وہ جی ہی جی میں بہت خوش ہوئی اور سوچتی رہی ۔’’ میرا گاموں تو کوئی بے مطلب بات نہیں کرتا ۔ میرے گاموں کی نظریں کتنی دور پہنچتی ہیں !‘‘

اسی شام کو جب اس پر نیند کی مستی چھا رہی تھی اور نائن دیوار سے لگ کر اونگھ رہی تھی تو دروازہ کھلا اور گاموں ہانپتا اندر آیا ۔ کاندھے سے بستر اُتار کر زمین پر پٹخ دیا اور مہری کی طرف دیکھ کر بولا ۔’’کیا بات ہے ، بیمار تو نہیں ہو مہری؟‘‘

مہری چونک پڑی ۔ اس کی رگوں میں خون کھولنے لگا ۔ وہ اس شدت سے لرزی کہ اس کے پہلو میں لیٹا ہوا ننھا سوتے میں بلبلا اٹھا۔ گاموں سب کچھ سمجھ گیا اور مسکرایا، لیکن یہ مسکراہٹ بہت بے رونق سی تھی!

بوڑھی نائن نے اُٹھ کر گاموں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے کاندھے کو اپنے’’ نسوارآلود ‘‘ ہونٹوں سے بوسہ دیا ۔ کڑوے تیل کا دیا طاقچے میں دم بخود پڑا تھا اور سارے کمرے میں زرد زرد روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ بڑھیا بولی۔ ’’ میرے لال تجھے لاکھ لاکھ مبارکیں، یوں بھی کوئی نوکری سے آتا ہے۔ نہ گز بھر لمبا طّرہ، نہ ریشمی قمیص، نہ گلابی لنگی، جیسے چوری چھپے کھسکتا ہوا گلیوں میں ادھر آ نکلا ۔ آخر یہ بھی کیا آنا ہوا۔‘‘ اور گاموں نے اپنا بستر کھول کر بڑھیا کو ایک کپڑا نکال دیا اور کہا ’’ لے خالہ یہ تیری نذر ۔‘‘ اور جب وہ بستر کو لپیٹ رہا تھا تومہری نے ایک طرف سونے کے جھمکے، ریشمی قمیص اور رنگدار لنگیاں پڑی دیکھیں۔

بوڑھی نائن گاموں کو دعائیں دیتی گھنٹہ بھر کے لئے گھر چلی گئی۔ گاموں مہری کے قریب گیا اور جھک کر بولا۔’’ مہری! ‘‘ مہری کانپ اٹھی! اور اپنے کمزور ہاتھ بلند کر کے اس کے کاندھوں پر رکھتے ہوئے بولی۔’’ کتنے مہینوں کی چھٹی ملی ہے ؟‘‘

گاموں نے اِدھرُ ادھر دیکھا۔ خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور مدھم آواز میں بولا ۔’’ میرا نام کٹ گیا!‘‘

باہرکوئی بھولا بھٹکا کوا ان کے مکان کی چھت پر سے کائیں کائیں کرتا گزر گیا! مہری کے پہلومیں سویا ہوا ننھا بچہ سوتے میں اچانک کانپ کر رہ گیا۔ مہری پھٹی پھٹی نظروں سے اسے گھورتی ہوئی بولی ۔’’ کس لئے؟‘‘

وہ بولا ۔’’ میں پکا ہونے والا تھا اس لئے میرے افسروں نے میرے چال چلن کے بارے میں نمبر دار سے پوچھ بھیجا تھا۔ نمبر دار نے لکھ دیا کہ یہ خطرناک آدمی ہے۔ اس کا والد ’’ انت الہادی انت الحق ‘‘ پڑھا کرتا تھا اور اس کے گھر میں ابھی تک سرخ رنگ کی ٹوپی لٹک رہی ہے ۔ جس پر چاند ستارے کا نشان ہے ۔۔۔۔۔ افسروں نے مجھے برخاست کر دیا ہے!‘‘

مہری اسی طرح لیٹی رہی، اس نے کوئی حرکت نہ کی جب گاموں نے جھمکے نکال کر اس کے سینے پر رکھ دیئے تواس نے انہیں چھوا تک بھی نہیں، بولی ۔’’ آج کل سونے کاکیا بھاؤ ہے ؟ جھمکے بک جائیں تو کتنے دن بے فکری میں گزریں گے؟اور شائد یہ سلی سلائی قمیصیں بھی کوئی خرید لے!‘‘

گاموں بھونچکا سا رہ گیا ۔ دیوار پر دوڑتی ہوئی ایک چھپکلی سرخ ٹوپی سے ٹکرائی اور ٹوپی گرد و غبار کا ایک مرغولہ اڑاتی گاموں کے قدموں میں آن گری! اور باہر اندھیرے میں کوئی بھولا بھٹکا کوا کائیں کائیں کرتا نمبردار کے بالا خانے سے ٹکرا کر پھڑ پھڑایا اور جانے کدھر اڑ گیا۔


متعلقہ تحريريں:

سُرخ ٹوپی (حصّہ چهارم)

سُرخ ٹوپی (حصّہ پنجم)

اپنے دکھ مجھے دے دو

آگ کا دریا

بڈھا

چڑيل

روشنی

کپاس کا پھول

کپاس کا پھول (حصّہ دوّم)

کپاس کا پھول (حصّہ سوّم)

کپاس کا پهول (حصّہ چهارم)

کپاس کا پهول (حصّہ پنجم)