• صارفین کی تعداد :
  • 2458
  • 9/29/2010
  • تاريخ :

سید ابن طاؤوس  اور  پراسرار سفر

بسم الله الرحمن الرحیم
عارف کامل ابن طاؤوس کو جب بھی فرصت ملتی تھی معصومین علیہم السلام کی زیارت پر نکل جاتے تھے مقدس مقام کی معنویت سے بہرہ مند ہوتے تھے سفر میں وہ تنہا نہ ہوتے تھے بلکہ ان کے ساتھ دوسرے رفقاء بھی ہوتے تھے ان کی امید ہوتی تھی کہ سید ابن طاؤوس کے ساتھ جو کرامات ہوں ان میں وہ بھی شامل رہیں اور سفر کی یاد باقی رہے۔

سامرا کی زیارت کے وقت ایک باررشید ابو العباس بن میمون واسطی نامی نیک سیرت شخص ابن طاؤوس کے ہمراہ تھا پورے سفر میں دونوں میں علمی، عرفانی، اعتقادی، سیاسی گفتگو ہوتی رہتی ان میں بعض باتیں سید ابن طاؤوس کے لئے اتنی اہم تھیں کہ انہیں ”فرج المہموم“ نامی کتاب تحریر کر کے لباس جاودانہ عطا کیا۔ ہم اس داستان کو اختصار سے نقل کرتے ہیں تاکہ ابن طاؤوس کے ہمسفر ساتھیوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔

رشید ابوالعباس بن میمون واسطی نے سامرا کے سفر میں بیان کیا:

”میرے استاد و درام بن ابو فراس نے جنگ و بدامنی کی وجہ سے حلہ چھوڑ کر کاظمین کا رخ کیامیں بھی واسط سے کاظمین آگیا تاکہ بعد میں سامرا جاؤں۔ مجھے یاد ہے ایک دن حرم مطہر میں استاد سے ملاقات ہوئی صاحب سلامت کے بعد میں نے کہا کہ یہاں سے زیارت کے لئے سامرا جاؤں گا۔

استاد نے کہا:

”میں چاہتا ہوں ایک خط دوں جسے غیروں کی نگاہ سے پوشیدہ اور غائب ہونے سے محفوظ رکھو۔“

مجھے ایک خط دیا اور کہا:

”جب حرم مطہر پہنچنا تورات کے وقت داخل ہونا جب سب لوگ باہر چلے جائیں تمہیں یقین ہو جائے کہ اب کوئی نہیں ہے تم آخری فرد ہو جو حرم سے باہر نکل رہے ہو اس وہ میرے خط کو امام  کی نورانی ضریح کے پاس رکھ دینا جب صبح سب سے پہلے حرم آنا اور خط نہ دیکھنا تو کسی کو بھی اس راز سے آگاہ نہ کرنا۔“

 استاد کے حکم کے مطابق میں نے خط کو محفوظ طریقہ سے ضریح اقدس کے پاس رکھ دیاصبح جب دوبارہ گیا تو خط وہاں نہیں تھا لہٰذا میں مطمئن ہو کر وسطہ واپس آگ ای کسی سے بتائے بغیر اپنے کام میں مشغول ہو گیا دوبارہ جب زیارت کے لئے حلہ سے گذرا تو استاد کی خدمت میں حاضر ہوا استاد نے مجھے دیکھ کر فرمیاا: ”میری جو حاجت تھی پوری ہو گئیں۔“

 اسی وقت استاد ورام کی رحلت کی تیس سال ہو گئے اس راز کو میں نے کسی سے بھی بیان نہیں کیا۔

ہاں! خود سید ابن طاؤوس کے دل میں بہت سے ایسے راز تھے جنہیں وہ لوگوں کے سامنے بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے کبھی کبھی بعض اسرار صفحہٴ کاغذ پر نمودار ہو جاتے تھے جو ہمارے لئے عمیق نمونہ عمل اور مشعل ہدایت ہیں۔

اس عادت کامل نے عظیم کتاب ”نہج الدعوات“ میں سامرا کے سفر کی داستان بیان کی ہے جو بہت دلچسپ ہے۔

”سب بدھ تیرہ ذی الحجہ ۶۳۸ھ سامرا تھا صبح کے وقت آقا و مولیٰ امام زمانہ  کی آواز سنی آپ اپنے چاہنے والوں کے لئے دعا کر رہے تھے فرما رہے تھے: خداوند! میرے شیعوں کو سرفرازی عطا فرما انہیں قوت، طاقت و ہماری حکومت عطا کر۔“

ابن طاؤوس علیہ الرحمہ نے صرف سامرا میں ہی امام زمانہ  کی آواز نہیں سنی بلکہ خود سرداب امام زمانہ  میں ایک صبح واضح طور پر امام  کی آواز سنی آپ فرما رہے تھے:

اَللّٰھُمَّ اِنَّ شِیْعَتَنَا خُلِقَتْ مِنْ شُعَاعِ اَنْوَارِنَا وَبَقِیَّةِ طِیْنَتِنَا وَقَدْ فَعَلُوْا ذُنُوْبًا کَثِیْرَةً اِتِّکَالاَ عَلٰی حُبِّنَا وَ وِلاَیَتِنَا فَاِنْ کَانَتْ ذُنُوْبُھُمْ بَیْنَکَ وَبَیْنَھُمْ فَاِصْلِحْ بَیْنَھُمْ وَقَاصِ بِھَا عَنْ خُمْسِنَا وَاَدْخِلْھُمُُ الْجَنَّةَ فَزَحْزِحِھُمْ عَنِ النَّارِ وَلاَ تَجْمَعْ بَیْنَھُمْ وَبَیْنَ اَعْدَائِنَا فِیْ سَخَطِکَ۔

”پروردگار! ہمارے شیعہ ہمارے نور کی شعاع ہیں یہ ہماری خلقت سے بچی ہوئی مٹی سے خلق کئے گئے ہیں ان کے کثرت سے گناہ ہماری دوستی وولایت پر تکیہ کئے ہوئے ہیں اگر ان کے گناہ تیرے اور ان کے درمیان مانع ہو رہے ہوں تو ان کی اصلاح کر ان کے گناہوں کو ہمارے خمس سے ختم کر دے اے اللہ! انہیں آتش جہنم سے دور رکھ ان کا مقام بہشت قرار دے اے معبود! ہمارے دشمنوں کے ساتھ سختی کر۔“

اسلام ان اردو ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

سید ابن طاؤوس اور بیمار ہر قل

سید ابن طاؤوس اور ندیم ابلیس

سید ابن طاؤوس اور شہر پر فریب پایہ تخت شیطان

سید ابن طاؤوس (علماء سے ارتباط)

سید بن طاؤوس(فقیہ آگاہ)

سید بن طاؤوس ( تحصیل نور)

سید بن طاؤوس (طائر قفس)

سعودی عرب،  شیعہ علمی و تہذیبی لحاظ سے بہتر پوزیشن میں

حضرت سید عارف حسین حسینی کی شہادت

علامہ سید عارف حسین حسینی کی پیدائش