• صارفین کی تعداد :
  • 2756
  • 6/14/2010
  • تاريخ :

سید ابن طاؤوس (شہر پر فریب پایہ تخت شیطان)

بسم الله الرحمن الرحیم

شہر پر فریب پایہ تخت شیطان

دھیرے دھیرے رضی الدین کی شہرت پورے عراق میں ہوگئی بغداد سے بڑی تعداد میں خطوط حلہ آنے لگے ان میں سے بعض حکومت میں رہنے والے مومنین کے تھے کہ رضی الدین ملک کے مرکز میں داخل ہو جائیں اگرچہ رضی الدین ظالم و جابر عباسی حکومت سے متنفر تھے خود ان کے اندر ذرہ برابر ہوا و ہوس نہیں تھی لیکن مومنین کی دعوت پر احساس ذمہ داری کیا اور یہ بغداد کی جانب روانہ ہوئے۔

بغداد میں موید الدین محمد بن احمد بن القلمی نے جو عباسی حکومت میں وزیر تھا رضی الدین کو خود اپنے گھر میں رہنے کے لئے جگہ دی یہاں پر ابن طاؤوس مومنین و سیاسی و مذہبی شخصیتوں سے ملاقات کرتے رہتی تھے ان ملاقاتیوں میں سے ایک سعد بن عبدالقاہر اصفہانی تھے ان کا شمار رضی الدین کے مشائخ میں ہوتا ہے اس مرد مومن نے صفر ۶۳۵ھ میں ابن طاؤوس سے ملاقات کے لئے سفر کیا ان دونوں بزرگوں کے درمیان بہت سے علمی گفتگو ہوئی۔

اگرچہ سیاسی مذہبی شخصیتوں سے ملاقات کے لئے پایہ تخت مناسب جگہ تھی اس کے ذریعہ سے رضی الدین نے عباسی خلیفہ مستنصر کے دربار میں بدر الاعجمی اور کثیر بن محمد بن محمد کی مدد کی لیکن ان سب کے باوجود سید نے بغداد کو شیطان کا گھر بیان کیا خلیفہ عباسی اوران کے درمیان جو باتیں ہوئی ہیں ان سے اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

بدبختوں کا شور

عراق کا یہ محقق جب کچھ دن بغداد میں رہ چکا تو مستنصر نے دارالخلافہ کا مقام فتویٰ جیسا منصب پیش کیا تاکہ آپ لوگوں کو اسلام کے واجبات و محرمات سے آگاہ کریں لیکن رضی الدین خلیفہ کی اس ظاہری پیش کش کے پس پردہ خلیفہ کا اصل مقصد جانتے تھے لہٰذا خلیفہ کے یہاں حاضر ہونے اور جواب دینے کے بجائے سجدہ خالق کیا گریہ و تضرع کے ساتھ کامیابی کی دعامانگی کہ مجھے خلیفہ کا اصل مقصد جانتے تھے لہٰذا خلیفہ کے یہاں حاضر ہونے اور جواب دینے کے بجائے سجدہ خالق کیا گریہ و تضرع کے ساتھ کامیابی کی دعامانگی کہ مجھے خلیفہ کے اس شیخ الاسلام منصب سے نجات دے گریہ و زارو دعا نے اثر دکھایا ابن طاؤوس نے بڑی ہوشیاری و بہادری سے اس منصب کو رد کردیا۔

ہاں! اس سے ابن طاؤوس کو کافی مشکلیں برداشت کرنی پڑیں دشمنوں نے اپنی دشمنی اور زیادہ کردی خلیفہ کے بیمار ذہن کو مزید ورغلانے میں لگ گئے ان کی دشمنی سے اس مرد مجاہد کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن خدا وند عالم کی رحمت و برکت شامل ہوئی جس سے حالات زمانہ ابن طاؤوس کے موافق ہو گئے۔

ایک اور کوشش

مستنصر جب اپنی پہلی کوشش میں ناکام ہو گیا تو بہت سے لوگوں کو وسیلہ بنایا تاکہ یہ مرد فقیہ نقابت (نقابت وہ بلند منصب تھا جو خلیفہ کی جانب سے اولاد ابو طالب میں سب سے عظیم شخص کو عطا ہوتا تھا صاحب منصب کو نقیب کہا جاتا تھا سادات کی سر پرستی اس نقیب کی ذمہ داری ہوتی تھی۔)جیسے عہدہ کو قبول کرے ابن طاؤوس نے عذر ظاہر کیا لیکن خلیفہ پیش کش دہراتا رہا سید بن طاؤوس اور خلیفہ کے درمیان یہ کشمکش کئی سال تک جاری رہی اس مدت میں حکومت کی یہ پیش کش دوسرے ذرائع سے بھی دہرائی گئی لیکن سید اپنی بات پر قائم رہے یہاں تک کہ وزیر نے جو خود محب اہل بیت  تھا عرض کیا :

”آپ اس منصب کو قبول کر لیجئے اور جو خدا کی مرضی ہو اس پر عمل کرئیے۔“

ابن طاؤوس نے جو اب دیا کہ :

” تم وزات میں رہتے ہو وہ کام کیوں نہیں کرتے جس سے خدا راضی ہو تا ہے ؟اگر ایسا ممکن ہوتا تو تم بھی عمل کرتے۔“

اس بار بھی حکومت اپنے مقصد میں ناکام رہی لیکن ابھی مایوس نہ ہوئی تھی ظالموں کا آخری حربہ خوف دلانا ہوتا ہے کہ خوف دلا کر کام لیا جا سکے لیکن سید ابن طاؤوس کے مضبوط ارادوں کے سامنی حکومت کا یہ حربہ بھی کام نہ کر سکا اب حکومت بالکل مایوس ہو کر بیٹھ گئی۔ مستنصر عباسی نے ابن طاؤوس سے کہا کہ:

”آپ ہماری مدد نہیں کررہے ہیں جب کہ سید مرتضیٰ و سید رضی(سید مرتضیٰ علی ابن ابی احمدحسین ظاہر بن موسی بن محمد موسی بن ابراہیم بن امام موسیٰ کاظم بن جعفر علیہما السلام شیعوں کے جید عالم تھے ، ادب ، کلام ، حکمت ، لغت ، فقہ ، اصول ، تفسیر ،حدیث و رجال میں کم نظر تے۔ ابن اثیر کے بقول چوتھی صدی کے مر وج مذہب شیعہ عالم تھے ان کے بھائی سید رضی بھی بہت بڑے عالم تھے جنہوں نے ” نہج البلاغہ “ جمع کیا ۔ ان دونوں بھائیوں کے حالات دو مستقل جلدوں” عظیم شخصیتوں “ کے سلسلہ میں لکھے گئے ہیں)نے حکومت وقت کے مناصب قبول کئے تھے کیا آپ ان بزرگواروں کو ظالم خیال کرتے ہیں یا معذور جانتے ہیں؟

یقینا معذور خیال کرتے ہیں لہٰذا آپ بھی اپنے کو معذور خیال کرتے ہوئے حکومت میں داخل ہو جائیے اور عہدے قبول کر لیجئے۔“

ابن طاؤوس نے جوا ب دیا:

” ان کا زمانہ اولاد بویہ “ کا زمانہ تھا جو شیعہ بادشاہ تھے مخالف خلفاء کے سامنے ان کے اعتقادات واضح تھے لہٰذا حکومت میں اثر و رسوخ رکھنا رضائے الٰہی کے مطابق تھا۔ “(سید ابن طاؤوس نے اپنے بیٹوں کو خطاب کر کے یہ تحریر کیا ہے … میں نے جو جواب سید مرتضیٰ و سید رضی کے سلسلہ میں مصتنصر کو دیا وہ تقیہ و موسوی ہیبت پر حسن ظن کی بنا پر تھا ورنہ مجھے ان کے حکومت میں داخل ہونے کا معقول عذر نہیں مل سکا ہے )

اس جواب کے بعد مستنصر نے پھر کبھی نقابت کی پیش کش نہ کی ابن طاؤوس سے نجات پانے کے لئے اب دوسرا بہانہ تلاش کرنے لگا۔

اسلام ان اردو ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

سید بن طاؤوس (طائر قفس)

سعودی عرب،  شیعہ علمی و تہذیبی لحاظ سے بہتر پوزیشن میں