• صارفین کی تعداد :
  • 2765
  • 4/4/2010
  • تاريخ :

سعودی عرب،  شیعہ علمی و تہذیبی لحاظ سے بہتر پوزیشن میں

شیخ عبدالکریم کاظم الحبیل

سعودی عرب میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے نمائندے اور قطیف صوبے میں (شہر قطیف سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر واقع) جزیرہ تاروت کے امام جمعہ شیخ «عبدالکریم کاظم الحبیل» انقلاب سے قبل حصول علم کی غرض سے قم المقدسہ میں تشریف لائے تھے اور انقلاب کے سات سال بعد سعودی عرب واپس لوٹے اور گذشتہ 24 سال سے تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

ابنا: سعودی عرب میں اہل تشیع کی آبادی کتنی ہے اور اہل تشیع کی ثقافتی و معاشی صورت حال کیا ہے؟

جواب: سعودی عرب میں اہل تشیع کی اکثریت احساء اور قطیف میں سکونت پذیر ہیں لیکن جنوبی اور مغربی علاقوں میں بھی اہل تشیع کی اچھی خاصی آبادی ہے مگر وہاں رہنے والے اہل تشیع کی اکثریت کا تعلق اسماعیلی مکتب سے ہے۔

مشرقی سعودی عرب میں تقریبا 20 لاکھ شیعہ رہتے ہیں اور وہ سب دینی اور شرعی احکام و اعمال کے پابند ہیں اور تمدنی و تہذیبی لحاظ سے دیگر مذاہب سے برتر صورتحال سے بہرہ مند ہیں اور تعلیمی لحاظ سے بھی دوسرے علاقوں کے عوام سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔

معاشی لحاظ سے، شیعہ نوجوانوں کی اکثریت کمپنیوں میں سرگرم عمل ہیں لیکن سعودی عرب کے سرمایہ داروں اور ثروتمند تاجروں میں شیعہ کم ہی نظر آتے ہیں۔ شیعہ نوجوانوں کی تعلیمی قابلیت بہت اچھی ہے مگر اہم سرکاری اداروں میں ان کو بھرتی نہیں کیا جاتا؛ وزارت دفاع اور اوقاف میں شیعہ باشندوں کو بالکل نہیں لیا جاتا اور فوج میں بھی آفیسر رینک میں کوئی بھی شیعہ باشندہ موجود نہیں ہے۔

ابنا: شیعہ نوجوانوں کے ثقافتی رجحانات کئے ہیں؟

جواب: ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد دیگر ممالک کی طرح سعودی نوجوانوں کے دین و ثقافت کو بہت ترقی ملی گو کہ سوشلزم کی طرف بھی تھوڑا بہت رجحان پایا جاتا ہے تاہم اسلامی تفکر کی روح سعودی نوجوانوں پر غالب ہے۔

ابنا: جدید (ماڈرن) دنیا میں تشیع کے فروغ اور نوجوانوں کے تشیع کی طرف رجحان کے سلسلے میں کس طرح کی تبلیغ مفید ہو سکتی ہے؟

جواب: عالمگیریت نے نوجوانوں کو کافی حد تک متأثر کیا ہوا ہے؛ خلیج فارس کے کنارے واقع ممالک کے نوجوان جدت اور دین کو اکٹھا کردیتے ہیں؛ مثال کے طور پر وہ ظاہری طور پر دینی شعائر کا لحاظ نہیں رکھتے تا ہم نماز بھی ادا کرتے ہیں اور شیعہ نوجوان عزاداری کی مجالس میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ الشرقیہ کے علاقے میں دینی تبلیغ کے سلسلے میں اس نئی صورت حال کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور اس وقت تبلیغ جشنوں، میلوں، اوپرا کی محافل اور تھیئٹر وغیرہ کے ذریعے بھی دین کی تبلیغ کی جارہی ہے۔

ابنا: علمائے دین کو تکفیری آراء و خیالات اور فتووں کا مقابلہ کرنے کے لئے کیسی حکمت عملی اپنانی چاہئے؟

جواب: ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء کو مسامحت اور صبر و برداشت کی تبلیغ کرنی چاہئے؛ اسلامی مذاہب کی تقریب اور وحدت کے لئے عملی تبلیغ کرنی چاہئے۔

ہم نے سعودی عرب میں وحدت و اتحاد پر مبنی تقریر و تحریر کے ذریعے تکفیری یلغار کا مقابلہ کیا؛ اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان گفتگو کے لئے مشترکہ تفکر پر مبنی ادارہ تشکیل دیا اور عملی طور پر بھی اسی راہ پر گامزن ہوئے۔ مثلا حال ہی میں ایک سنی بزرگ دنیا سے رخصت ہوئے تو میں نے ذاتی طور پر ان کے جنازے میں شرکت کی اور ان کے خاندان کے سوگ میں بھی شریک ہوا۔

ابنا: ہمارا سوال یہ ہے کہ وحدت کے سلسلے میں اہل تشیع کے اقدامات کے نتائج کیا ہیں؛ اور یہ کہ العریفی نے آیت اللہ العظمی سیستانی کی توہین کی تو اہل سنت کے علماء کا رد عمل کیا رہا؟

جواب: تمام مقررین اور خطباء نے ان کے اقدام کی مذمت کی؛ تقریب اور وحدت پر مبنی خطوط تمام اہل سنت کے تمام علماء کی خدمت میں روانہ کردیئے گئے؛ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ان اقدامات کا سد باب کرے اور سعودی عرب کی انسانی حقوق کمیٹی سے درخواست کی گئی کہ اس شخص پر مقدمہ چلائے اور ویب سائٹوں پر بھی شیعہ سنی پرامن بقائے باہمی کو ترویج دی گئی؛ تمام علماء نے جلدبازی میں تکفیر کے فتوے دینے سے پرہیز کیا حتی کہ سعودی روزناموں میں العریفی کے خلاف لکھا جاتا رہا۔

ابنا: عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی کو ایسی کونسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت اس کے اقدامات زیادہ مؤثر ہوں؟

جواب: پہلی بات یہ ہے کہ اسمبلی اہل سنت کے معتدل دینی شخصیات کے ساتھ تقریب اور وحدت کا پل ترتیب دے؛

دوسری بات یہ کہ اسمبلی کی کتابوں اور مجلات میں نہایت قوی دلائل و براہین سے استفادہ کیا جائے اور فریقین کے درمیان بحث کے سلسلے میں کسی بھی فریق کو ترجیح نہ دے اور فیصلہ قارئین پر چھوڑے۔

ابنا: آخری بات؟

جواب: اللہ تعالی سے التجا کرتا ہوں کہ امام زمانہ (عج) کے ظہور میں تعجیل فرمائے کہ امام زمانہ علیہ السلام امت کو اتحاد بخشنے والی شخصیت ہیں۔