• صارفین کی تعداد :
  • 3576
  • 1/2/2010
  • تاريخ :

سید بن طاؤوس (طائر قفس)

سید بن طاؤوس

حلہ کے ہر گھر ، در و دیوار پر ماہتاب نور افشانی کر رہا تھا، اطراف شہر کے باغ سورج کی گرمی پا کر ایک بڑے بہادر سپاہی کی طرح مضبوط ہو گئے تھے۔ حلہ کا حاکم شہر جو تنگدستی، نادری، فقرا و تاراجی سے نجات دینے میں مشغول تھا گھروں میں بالکل خاموشی تھی بہت سے صرف کتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔

ابو ابراہیم (ابو ابراہیم سعد الدین موسی ابن جعفر، سید ابن طاؤوس علیہ الرحمہ کے والد ماجد تھے۔) پریشانی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے ان کے دل کی دھڑکن بھی تیز تھی کہ کیا آج کی رات بغیر کسی ناگوار حادثہ کے ختم ہو جائے گی؟یا …

البتہ صرف وہی مضطرب نہیں تھے بلکہ دوسری جانب شہر کے بڑے عالم و رام بھی آئندہ کے لئے فکر مند تھے ۔ چودہ محرم ۵۸۹ ھ کی شام دوسری شاموں کی طرح تمام ہوگی، صبح کو دوبارہ سورج روشن ہوگا ؟

قسمت نے ایسا انتظام کیا تھا کہ ابو ابراہیم اور ورام دونوں اس شب ایک ہی چیز کی فکر میں مشغول میں تھے جس عورت کے یہاں ولادت ہونے والی تھی وہ ورام کی بیٹھی تھیں لہٰذا ورام فکر مند  تھے اور وہ خاتون ابو ابراہیم کی زوجہ تھیں-  اس وجہ سے ابوابراہیم پریشان تھے۔ (سعدالدین ابو ابراہیم موسی ابن جعفر ، عالم، زاہد ورام بن ابی فراس مولف” مجموعہ ورام“ کے داماد تھے ۔)

درخشاں ستارہ

حلہ کے  پارسا کی دعا  مستجاب ہوئی - ۱۵ محرم ۵۸۹ ھ  کو ابو ابراہیم کے گھر میں بچہ کی ولادت ہوئی،  اس بچہ کا نام ” علی “ رکھا گیا۔ (علی ابن موسی نام تھا، کنیت ابو القاسم تھی، لقب رضی الدین تھا)

علی اپنے والد بزرگوار اور نانا (سلسلہ نسب اس طرح ہے: علی ابن موسی ابن جعفر بن محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن ا بی عبداللہ محمد الطاؤوس بن اسحاق بن حسن بن سلیمان بن داؤد بن الحسن المثنی بن امام حسن مجتبی علیہ السلام ) کے سایہ شفقت میں دھیرے دھیرے بڑے ہونے لگے اور ابتدائی درس حاصل کیا انہوں نے جلدی ہی جان لیا کہ ان کا ربط آسمانی مخلوق سے ہے۔  تیرہ پشت کے بعد ان کا سلسلہ نسب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام پر ختم ہوتا ہے ۔ ورام نے ان سے بتایا کہ شیخ طوسیٰ سے وہ کیا رشتہ رکھتے ہیں (بعض مورخوں نے ابو ابراہیم موسیٰ کا شیخ طوسی کا نواسا  لکھا ہے یعنی جعفر بن محمد، موسی کے والد شیخ طوسی کے داماد تھے اسی بنا پر سید بن طاؤوس نے شیخ طوسی کو جد کہا ہے اور بعض مورخوں نے شیخ طوسی کی نسبت دوسری وجہ سے دی ہے)

ان کے دادا محمد بن اسحاق بدن کے خوبصورت و پیر کے ناموزوں ہونے کی بنا پر ”طاؤوس کے نام سے مشہور تھے۔

 سید نے صرف ورام ہی سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنے والد بزرگوار سے بھی بہت کچھ سیکھا ہاں! انھیں حلہ کے مرد پارسا کا سایہ زیادہ دنوں تک نصیب نہ ہوا-  دو محرم ۶۰۵ ھ  کو انھیں پہلا غم برداشت کرنا پڑا۔

آج کے دن ورام بن ابی فراس (ورام بن ابی فراس سید ابن طاؤوس کے نانا تھے ان کا سلسلہ نسب جناب مالک اشتر پر منتہی ہوتا ہے حلہ میں ان کا بہت بڑا  کتب خانہ تھا اس مرد محقق نے تنبیہ الخواطر جیسی تحقیق کتاب چھوڑی ہے جو آج ” مجموعہ ورام“ کے نام سے مشہور ہے  آستان قدس رضوی سے اس کا فارسی ترجمہ نشر ہو چکا ہے۔) نے اجل کو لبیک کہا جس سے خاندان سادات میں کہرام بپا ہوگیا۔

عراق کی عظیم عالم کی موت سید علی کے صرف نانا کا سایہ اٹھنا نہ تھا بلکہ ایک شفیق استاد سے محرومی بھی تھی اس شیعہ عالم دین نے سید کی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا سید انہیں نمونہ سمجھتے تھے کہتے ہیں :”کان جدی ورام بن ابی فرا س قدس اللہ جل جلالہ ممن یقتدی بفعلہ‘ …میرے نانا ورام بن ابی فراس ، اللہ تعالیٰ ان کی روح کو شاد کرے ، کا فعل نمونہ عمل تھا۔ “ (سید بن طاؤوس نے فرمایا کہ عقیق کے نگینہ پر خدا و معصومین علیہم السلام کیا سمائے مبارک نقش ہوں تو مردہ کے منھ میں اس نگینہ کو رکھ دیا جائے)

https://www.islaminurdu.com


متعلقہ تحریریں:

آیۃ اللہ میرزا نائینی رحمۃ اللہ علیہ

آیة اللہ  شیخ ھادی معرفت