• صارفین کی تعداد :
  • 1503
  • 1/1/2011
  • تاريخ :

غالب ایک نئی آواز

مرزا غالب

دھرتی پرنراج کب اور کہاں نہیں رہا ہے۔ بنی نوع انسان کو کسی بھی دور میں اس سے مفر نہیں رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے اثرات کسی دور میں کم اور کسی میں زیادہ ہوا کرتے ہیں۔ غالب کاعہد بھی اپنے اندر نراج کی ایک پوری تاریخ رکھتا ہے حکومت مغلیہ کا زوال خود ایک درد ناک کہانی ہے اور پھر اس کے رد عمل نے جن ذہنی اور دماغی کیفیات کو ضم کردیا وہ کسی بھی طرح ایسی نہیں کہ کوئی بھی اپنے آپ کو صحیح حالت میں برقرار رکھتا اور ایک شاعر کو اور وہ بھی غالب جیسے حساس شاعر کو تو اور بھی زیادہ متاثر ہونا تھا۔ غالب کے لئے یہ صرف ایک سلطنت ہی کا زوال نہیں تھا۔ بلکہ یہ ان کی ذات، ان کی اعلیٰ نسبی خاندانی وقار، وضع داری سب کے لئے دور آزمائش تھا۔ غالب نے غلط نہیں کہا تھا کہ جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے ایک طرف ان کا شاندار ماضی ان کے دل پرکچو کے لگاتا تو دوسری طرف ان کی بد حالی اور تنگ دستی ان کے انا کو قدم قدم پر اور لحظہ بہ لحظہ مجروح کرتی ان کے انا کے ٹوٹے ہوئے شیشے کی کرچیاں ان کی روح میں پیوست ہوجاتیں اور ان کا تار احساس جھنجھنانے لگتا۔ وہ اس حصار کو توڑ دینا چاہتے تھے جو زمانے اور بدلتی ہوئی قدروں نے ان کے گرد قائم کررکھا تھا مگر ان کی تمام کوشش خود ان کا شیرازہ بکھیر دیتیں۔ اسی لئے ان کا فکری اور ذہنی رجحان کبھی مذہب یاتصوف کی طرف جھک جاتا ہے تو کبھی لا مذہبیت کی طرف وہ اپنی ذات اور اپنے فن کے ساتھ وہ سلوک نہ کر پاتے ان کی روح جس کی متمنی تھی دوسرے یہ کہ جب وہ یہ دیکھنے کے بجائے ان کے بہادر شاہ ظفر ذوق کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ اور انہیں استاد تسلیم کیا جارہا ہے تو شعوری یا غیر شعوری طور پر انہیں ایک اذیت سی محسوس ہوتی، ایک ایسی اذیت جو ڈھکے چھپے لفظوں میں ذوق کے لئے ہجو تک کہلوا دیتی۔ غالب کے خاندانی عظمتوں کے نقوش اور ان کے ذاتی مطالبات انہیں ہمیشہ ایک نہ ختم ہونے والے کرب میں مبتلا رکھتے ایک جگہ جھلاتے ہوئے کہتے ہیں:

”غالب اگر عالم نہیں، شاعر نہیں، آخر شرافت اور امارت میںایک پایہ رکھتا ہے۔ صاحب عزو شان ،عالی خاندان ہے، امرائے ہند، اوررﺅسائے ہند سب اس کو جانتے ہیں، رئیس زادگان سرکار انگریزی میں گنا جاتا ہے۔

امرائے ہند، اور رﺅسائے ہند یقینا غالب کو جانتے رہے ہوں گے کیوں کہ غالب اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے لیکن غالب نے یہ کیوں کہا کہ ”رئیس زادگان سرکار انگریزی میں گنا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے۔ یامبالغہ۔ وہ رئیس زادگان سرکار انگریزی میں کیوں شمار کئے گئے اور کس حیثیت سے شمار کئے گئے، بحیثیت غالب یا بحیثیت اسد اللہ خاں،وہ اسد اللہ خاں جن کے آبا و اجداد کا پیشہ سو پشت سے سپہ گری تھا غالب کے اس آسان اور معمولی شعر پر غور کیجئے۔

سو پشت سے ہے پیشہ  آبا سپہ گری

کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے

غالب کا اپنے اجداد کے پیشہ پر فخر بجا، لیکن انہیں یہ معلوم ہوچکا تھا کہ تلوار اب اپنی قدر و قیمت کھو چکی ہے۔ لوہا بہت تیزی سے اپنی شکلیں بدل رہا ہے، لیکن سماج میںابھی قلم کی عزت و حرمت باقی ہے، چنانچہ غالب نے تلوار کے بجائے قلم اٹھا لیا۔ اس جدید اسلحہ سے غالب نے وہی کام لیا جو ان بزرگوں نے تلوار سے کام لیا تھا۔ غالب کا یہ فیصلہ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ تھا۔ ان کے قلم نے خود ان کی ذات کا تحفظ تو کیا ہی ان کے اسلاف کے کارناموں کو بھی روشن رکھا۔ لیکن انگریز ان کے اسلاف کے کارناموں اور خود غالب کی ذات و صفات سے اچھی طرح واقف نہ تھے۔ اور اگر تھے بھی تو انہوں نے نہ توغالب اور نہ ان کے شاندار ماضی کو اس نظر سے دیکھا جس نظر سے غالب دیکھتے تھے۔ ایسا ہونا غیر فطری بھی تھا۔ غالب کو یہ بھی معلوم تھا کہ ماضی کی بازیافت ممکن نہیں لیکن حکومت وقت کو متوجہ کرنے کا ماضی بھی ایک ذریعہ ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ سماج میں عزت و شہرت وقار حاصل کرنے کے دوسرے ذرائع بھی ہیں، ان میں سب سے معتبر ذریعہ قلم ہے۔ چنانچہ اپنے آپ کو قائم کرنے میں انہوں نے اپنا پورا زور قلم پر صرف کیا۔ یہاں تک کہ انگریزوں کی قصیدہ خوانی بھی کی مگر صلے کے طور پر شکریے کے چند الفاظ کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آیا اور وہ فارغ البالی کے لئے ترستے رہے۔

وہ فراق اور وہ وصال کہاں

وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

فرصت کاروبار و شوق کسے

ذوق نظارہ جمال کہاں

ایسا آساں نہیں لہو رونا

دل میں طاقت جگر میں حال کہاں

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں

میں کہاں اور یہ وبال کہاں

غالب کو اس بات کا بہت رنج اور احساس تھا کہ وہ عظیم ہوکر بھی اپنے عہد میں عظیم تسلیم نہیں کئے جا رہے ہیں۔ دربار میں دوسرے شعراء کا طوطی اسی طرح بول رہا ہے اور وہ حجر ہ نشینی پر مجبور ہیں، نتیجتاً کبھی کبھی ان کے اندر جھنجھلاہٹ، بیزاری اور کسی قدر مایوسی کے جذبات بھی پیدا ہوجاتے اور وہ فرار کاراستہ اختیار کرتے، لیکن ایسے مواقع کم آتے غالب کرتے بھی کیا؟ کھویا ہوا وقار آسانی سے مل نہیں سکتا۔ خود کو بھولنا بھی ناممکن تھا۔ انہوں نے شراب پی اور خوب پی۔ یہاں تک کہ فاقے کی نوبت آگئی۔ ادھار کب تک ملتا۔ قمار بازی کی طرف راغب ہوئے، مگر یہ راہ بھی راس نہ آئی۔ ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد اس طرح کے اخلاقی جرم میں اسیر زنداں نہ ہوا ہوگا۔ مگر غالب کو ہونا پڑا، غالب خدا کے منکر بھی ہوئے مگر ان کی فراریت، لامذہبیت اور مغرب نوازی ان کی بقا کی جنگ میں شکست کا نتیجہ ہیں، غالب کو شکست دینے والا کوئی اکیلا فرد نہیں تھا یا کوئی اکیلی طاقت نہیں تھی انہیں شکست دینے والا ان کا اپنا عہد اور اس کی تیزی سے بدلتی قدریں تھیں۔ عہد غالب کاسماج ٹوٹ رہا تھا ، بکھر رہا تھا۔ ایک نراج کی سی کیفیت پیدا ہوچکی تھی۔ اس انتشار میں کون کسے دیکھتا اور کون کس کی سنتا، غالب کے ساتھ بھی یہی ہوا چنانچہ ان کی ذاتی زندگی کی محرومیاں انتشار اور شکست سب کچھ ان کی شاعری میں سمٹ آئیں اور مقصدیت چاہے وہ ذاتی ہو یا سماجی ، جب بھی جذبہ یا تجربہ بن کر فن کے سانچے میں ڈھلتی ہے تو آفاقی ادب کا ظہور ہوتا ہے، ذاتی اور سماجی مسائل وہ اجزاء ہیں کہ جب یہ فکر کی آنچ میں تپتے ہیں تو ان سے ایک عظیم شخصیت جنم پاتی ہے۔ غالب کی شخصیت اور زندگی میں وہ تمام گوشے موجود ہیں جو ایک جدید ترقی پسند آدمی میں ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیں ان کے دیوان میں یاسے اشعار موجود ہیں جن میں ایک نئے معاشرت کی بشارت موجود ہے۔

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے

عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا

ہے کہاں تمنا کادوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کوایک نقش پا پایا

زمانہ عہد میں اس کے ہے محو آرائش

بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے

غالب پر مہمل گوئی، اور مشکل پسندی کا بھی الزام ہے۔ لیکن جب ہم ان کی ذات اور ان کے عہد کے ٹیڑھے ترچھے مسائل پر غور کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشکل پسندی ان کے عہد کا خاص تحفہ تھی۔ غالب نے اشیاءاور دنیا کو جس طرح دیکھا، بالکل اسی طرح بیان بھی کردیا، انہیں اس کی پروا نہ تھی کہ وہ اپنے پڑھنے اور سننے والے کو مطمئن بھی کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اسی لئے نہ وہ ستائش کی تمنا کرتے ہیں اور نہ ملنے کی پروا۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دنیا اور اشیاءکو دیکھنے اور پرکھنے کا میزان اور نظر زمانہ ترتیب دیتا ہے۔ اس موقع پر اگر غالب کے سلسلے سے جدید شاعری خاص طور پر 1960 ء کے بعد جو شاعری منظر عام پر آئی اس کا ذکر کر یں تو یہ غیر مناسب نہ ہوگا کیوں کہ ۰۶۹۱ءکے بعد جو شاعری یا شاعر منظر عام پر آئے ان پر بھی مہمل گوئی اور مشکل پسندی کا الزام عائد کیا گیا۔ بنیادی طور پر ہم کواس عہد پرغور کرنا چاہئے۔

1960 ء اور اس کے بعد کی دہائی کئی لحاظ سے اہم ہے۔ اسی زمانے میںایٹم کی تسخیر ہوئی، پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ ، فوجی حکومت کا سلسلہ، ہندوستان میں مفلسی، بیکاری، بیروزگاری بڑھتی ہوئی سرمایہ داری، ایمر جنسی فرقہ وارانہ فسادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ان تمام اسباب نے اک انتشار کا عالم پیدا کر دیا۔ اس صورت حال میں انسان اپنے آپ کو تنہا اور غیر محفوظ محسوس کرنے لگا۔ ایسی غیر محفوظیت کے احساس نے نئی نئی علامتوں، مثلاً چڑیل، اندھا کنواں، سیڑھی و غیرہ جیسی علامتوں کو جنم دیا۔ لیکن ان علامتوں میں کچھ علامتیں اتنی پیچیدہ ہوئیں جو سمجھ میں نہ آتیں۔ اسی لئے ترسیل کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا اور ان میں بہت سے شعراءمہمل گو قرار پائے۔ حالانکہ یہ مشکل پسندی بھی ان کے عہد کی دین تھی لیکن ان جدید شعراءاور غالب کے درمیان بڑا واضح فرق ہے وہ فرق ہے زندگی اور دنیا کی سمت ، رویے کا، جدید شعراءکا رویہ سماج دنیا اور زندگی کے سمت منسفیانہ تھا جب کہ گالب کا مثبت غالب کی زندگی نفی نہیں کرتے وہ زمانے اور زندگی کا رویہ سماج ، دنیا اور زندگی کے ہر مسئلے سے قدم قدم پر الجھتے ہیں، شکست بھی کھاتے ہیں، لیکن ہرشکست کے بعد، وہ ایک نئے حوصلے کے ساتھ نئے محاذ پر لڑنے پہونچ جاتے ہیں، غالب روایتی شاعر ہرگز نہیں تھے۔ ان کا غم دوراں بھی اپنا تھا اور غم جاناں بھی اپنا، ان کے اشعار ان کے مسیحا تھے۔

ان کی زندگی اور شاعری دونوں میں تلخیاں ہی تلخیاں ہیں چاہے وہ زندگی کی ہوں یا شراب کی وہ ان تلخیوں کولنڈھاتے جاتے تھے۔ وہ شاید یہ نہیں جانتے تھے یا انہیں اس کی فکر نہیں تھی کہ ان تلخیوں کو مئے ہوش ربا جان کر پینے والے ساری دنیا کے لوگ ہوں گے، ہاںانہیں اس کا احساس ضرور تھا کہ غالب فہم کوئی نہیں، اور اب تک گوشہ گمنامی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ شاید وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ کود ان کا عہد انہیں عظیم تسلیم کر چکا ہے۔

پروفیسر افغان اللہ خاں


متعلقہ تحریریں:

سیّد الشّہداء

اردو میں ناول کے خد و خال

احمد ندیم قاسمی کا 94واں یوم پیدائش

سُرخ ٹوپی (حصّہ ششم)

سُرخ ٹوپی (حصّہ پنجم)

سُرخ ٹوپی (حصّہ چهارم)

سُرخ ٹوپی (حصّہ سوّم)

سُرخ ٹوپی (حصّہ دوّم)

سُرخ ٹوپی

مفکر پاکستان اور فلسفی شاعرعلامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا یوم پیدائش