• صارفین کی تعداد :
  • 4186
  • 9/11/2011
  • تاريخ :

محاورہ، روزمرہ، ضرب المثل اور تلميح ميں فکري اور معنوي ربط (حصّہ چهارم)

محاورہ، روزمرہ، ضرب المثل اور تلميح ميں فکري اور معنوي ربط

محاورے اور ضرب المثل ميں بنيادي طور پر خاصا فرق پايا جاتا ہے، تاہم بعض محاورات اور ضرب الامثال ايسي ہيں، جن ميں لفظي سطح پر سوائے مصدر کے کسي طرح کي کوئي تبديلي رونما ہوتي دکھائي ديتي- مثلاً پشتو ميں ايک محاورہ ہے، "د پيخے نھ تيختھ کول" آئي (بلا) سے (بھاگ جانا) "د پيخے نھ تيختھ نشتھ" ضرب المثل ہے، ليکن اس سے "نشتہ" (نہيں) کو ہٹا کر "کول" ڈالنے سے (جو مصدر ہے) محاورہ بن جاتا ہے، اس مصدر نے محاورے اور کہاوت يا ضرب المثل کے اندر بنيادي حدِ فاصل يا اختلافي لکيرھي کھينچ دي ہے- بعض کہاوتيں محاورہ ہوسکتي ہيں، ليکن اس ميں مصدر کي شموليت بنيادي شرط ہے- اگر کہاوت ميں مصدر شامل ہے تو وہ کہاوت نہيں ہے، بلکہ محاورہ ہے اور بعض محاورات سے اگر علامتِ مصدر کو حذف کرديا جائے تو جو باقي رہ جاتي ہے، وہ کہاوت ہوتي ہے، محاورہ نہيں ہوتا-

تلميح بھي ايک ايسي ترکيب کا نام ہے جو ايک، دو يا دو سے زائد لفظوں پر مشتمل ہوتي ہے، ليکن اُن دو يا دو سے زائد لفظوں کے تناظر يا پسِ منظر ميں کوئي تاريخي واقعہ، کردار کوئي سانحہ يا رسم رواج مذکورہ ہوتا ہے- ايک دو لفظوں کے بولنے يا سن لينے سے وہ تاريخي يا نيم تاريخي واقعہ جو تاريخ کے کسي قديم زمانے ميں، کسي شخصيت يا کسي رسم رواج سے متعلق ہوتا ہے، فوراً ہماري نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے- تلميح دراصل ہمارے بزرگوں کے قدموں کے وہ نشان ہيں، جن پر ہم اُلٹے قدم چلتے ہوئے، اُس واقعے تک پہنچ جاتے ہيں- زبان ميں تلميح کي اہميت بہت بنيادي ہوتي ہے-  ہر زبان کي تلميحات اس زبان کي تہذيب، ماضي، کلچر اور اس کي قوم کے اسلاف کي زندگيوں سے پھوٹتي ہيں-

مولوي وحيد الدين سليم کے نزديک:

"اگر کسي زبان کي تلميحات بغور مطالعہ کي جائيں، تو ان سے اس زبان کے بولنے والوں کے گذشتہ واقعات اور تاريخ پرروشني پڑتي ہے- ان کے مذہبي عقائد، ان کے اوہام، ان کے معاشرتي حالات اور ان کي رسوم اور مشاغل معلوم ہوتے ہيں- کسي قوم نے جس طرح تمدني منزليں رفتہ رفتہ طے کي ہيں اور جو تبديلياں اس کي زندگي ميں يکے بعد ديگرے ہوتي رہي ہيں، اس کي زبان کي تلميحات کے مطالعہ سب نظر کے سامنے آجاتي ہيں-"

تلميح اور محاورے ميں معنوي ربط اور علاقہ تو موجود ہوتا ہے کہ دونوں کے پسِ منظر ميں کوئي واقعہ، سانحہ، کوئي حکمت اور دانائي کي بات يا کوئي رسم و رواج اور طرزِ زندگي کا کوئي پہلو يا کوئي مذہبي قصہ يا کوئي متھ ياد يو مالائي صورت موجود ہوتي ہے، ليکن دونوں کا خارجي پيکر يا پيٹرن ايک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے- تلميح اور محاورے کو ان کے ظاہري اور خارجي پيکر يا اوصاف کي بنا پر  کھبي موجود ہو سکتا ہے يعني کوئي محاورہ Combination بآساني عليحدہ کيا جا سکتا ہے- دونوں کے درميان تلميح محاورہ بھي ہوسکتي ہے، ليکن دونوں اپنے اپنے معنوي پس منظر ايک ہونے کے باوجود دونوں ايک نہيں ہوتے، بلکہ يہ دونوں اصلاحيں مختلف ہيں اور دونوں اپنے اپنے معنوي دائرہ ہائے کار مرتبہ کرتي ہيں- دونوں کا ايک عليحدہ عليحدہ خارجي پيکر ہے، ليکن جو چيزيں محاورے کے ليے لازمي ہوتي ہيں، ان ميں ايک تو يہ ہے کہ الفاظ کي جو ترکيب ہوتي ہے اور ان کا جو معنوي آہنگ ہوتا ہے، وہ مجازي ہوتا ہے- دوسرا يہ کہ وہ اہلِ زبان کے قواعد کے مطابق ہوتا ہے، جبکہ تلميح کے ليے اُس زبان کے قواعد کي پابندي ضروري نہيں ہے- وہ دوسري زبان سے سفر کرتي آتي ہے- مثلاً اُردو، پنجابي، سندھي بلوچي يا پاکستان کي ديگر زبانوں ميں تلميحات کا جو نظام ہے، وہ عربي عجمي معاشرے سے مسلمانوں کے ساتھ سفر کرتا ہوا يہاں تک پہنچا ہے- پشتون تہذيب اور زبان کي زيادہ تر تلميحات عربي اور فارسي کي وساطت سے پشتو ميں مروج ہوئيں- اسي طرح اُردو اور پاکستان کي ديگر زبانوں ميں بھي تلميح کا فکري تناظر اسي طرح مرتب ہوتا ہے، ليکن محاورے ميں دوسري زبانوں سے اخذ و استفادے کے باوجود ہر زبان کا اپنا ايک فکري کينوس ہوتا ہے، جس پر وہ زبان قوم يا تہذيب جس سے وہ محاورہ متعلق ہوتا ہے، ان کي زندگي کے مختلف رنگوں کو اپنے رسم و رواج، مذہبي تصورات، سياسي، فکري اور سماجي رويوں کے تناظر ميں مرتب کرتا ہے-

تلميح کي طرح ترکيب بھي محاورے کے ساتھ معنوي ربط بھي رکھتي ہے اور ظاہري اور لفظي اختلاف بھي- دراصل ترکيب ايک ايسي اصلاح ہے، جس ميں دو يا دو سے زيادہ لفظوں کو کسي حوالے سے باہم مربوط کيا جاتا ہے- مثلاً بعض اوقات مضاف اور مضافِ اليہ کو حرفِ اضافت کي مدد سے جوڑ ديا ہے، بعض اوقات صفت اور موصوف کو حرفِ اضافت کے تناظر ميں باہم جوڑ کر ايک ترکيب بنائي جاتي ہے- بيشتر پاکستاني زبانوں کي ترکيب سازي کے عمل ميں فارسي کي تراکيب کے نظام کے اثرات بے پناہ ہيں، بلکہ برصغير پاک و ہند ميں بولي جانے والي مسلم اکثريت کي تمام زبانيں اپني ترکيب سازي کے نظام کو فارسي سے مستعارليتي رہي ہيں- نوے فيصد سے زيادہ تراکيب سازي فارسي قواعد کے زير اثر ہوئي ہے، ہوتي رہي ہے- محاورہ اپنے خارجي پيکر ميں ترکيب ہوتا ہے، اس ليے ہم کہہ سکتے ہيں کہ ہر محاورہ ايک ترکيب ہوتا ہے، ليکن ہر ترکيب محاورہ نہيں ہوتي- محاورے اور ترکيب کا کارجي آہنگ مختلف ہوتا ہے، ليکن ان کے معنوي نظام ميں، معنوي يکجائي کے عناصر موجود ہوسکتے ہيں- مختصريہ کہ جب ہم ان تمام مذکورہ اصطلاحات (روزمر، ضرب المثل اور تلميح) کے تناظر کو محاورے کے ساتھ رکھ کر ديکھتے ہيں تو ہميں معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام اصطلاحات کے پس منظر ميں موجود معنوي رويہ تو تقريباً يکساں رہا ہے ليکن اس کے بعد اس کا خارجي آہنگ اور رنگ ڈھنگ مختلف ہوتا ہے-

تحریر: عبداللہ جان عابد


 متعلقہ تحريريں :

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت (حصّہ پنجم)

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت (حصّہ چهارم)

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت (حصّہ سوّم)

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت (حصّہ دوّم)

اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت