• صارفین کی تعداد :
  • 1894
  • 7/4/2011
  • تاريخ :

اسلام اور ہر زمانے کی حقیقی ضرورتیں (حصّہ سوّم )

الله

حال ہی میں یورپ کی آزادی مغرب کو سیراب کرنے کے بعد ہم مشرق زمین کے باسیوں کے ہاں آئی ہے ،اس نے ابتداء میں ایک محترم مہمان کی حیثیت سے اور اس کے بعد ایک طاقتور گھر کے مالک کی حیثیت سے ہمارے براعظم میں قدم جمائے ہے ۔اگرچہ اس آزادی نے افکار کے گھٹن کا بوریا بسترہ گول کر دیا اور آزادی کا نعرہ بلند کیا، یہ ایک بہترین وسیلہ اور مناسب ترین فرصت تھی جو ہمیں اپنی کھوئی ہوئی نعمت کو دوبارہ حاصل کرکے ایک نئی زندگی کی داغ بیل ڈال کر علم وعمل کو حاصل کرنے میں مدد کرتی ،لیکن افسوس یورپ کی یہی آزادی، جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دلائی ، ان ہی ظالموں کی جانشین بن کر ہمارے دل ودماغ پر سوار ہوگئی!

ہم نہ سمجھ سکے کہ کیا ہوا؟ جب ہم ہوش میں آئے تو دیکھا کہ وہ دن گزر گئے تھے جب ہم اپنی حیثیت کے مالک تھے اب خدا اور گزشتہ آسمانی طاقتوں کی باتوں پر توجہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ ہمیں صرف اسی طرح عمل کرنا چاہئے جو کچھ یورپی انجام دیتے ہیں اور جس راہ پروہ چلتے ہیں ،اسی راہ پر ہمیں بھی چلنا چاہئے !

ایک ہزار سال سے سرزمین ایران ''بو علی سینا''کو اپنی آغوش میں لئے ہوئی تھی اور اس کی فلسفی اورطبّی تالیفات ہماری لائبریریوں میں موجود تھیں اور اس کے علمی نظریات ورد زبان تھے اور کوئی خاص خبر نہیں تھی ۔

سات سو سال سے ''خواجہ نصیرالدین طوسی ''کی ریاضی کی کتابیں اور ان کے ثقافتی خدمات ہمارا نصب العین تھا اور کہیں اس کی خبر تک نہیں تھی ،لیکن ہم نے یورپیوں کے ان کے دانشوروں کے سلسلے میں یاد گار منانے کی تقلید کرتے ہوئے ''بوعلی سینا'' کے لئے ہزار سالہ یادگار اور'' خواجہ نصیرالدین طوسی ''کے لئے سات سو سالہ یاد گاری تقریبیں منعقد کیں۔

تین صدیوں سے زیادہ عرصہ سے ''صدرالمتالہین ''کا فلسفی نظریہ ایران میں رائج تھا اور انھیں کے فلسفی نظریہ سے استفادہ کیا جاتا تھا ۔ایک طرف سے برسوں پہلے تہران یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی گئی ہے اور اس میں قابل توجہ صورت میں فلسفہ پڑھایا جاتا ہے ،لیکن جب چند برس پہلے ایک مستشرق نے اس یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں ''ملاصدر''کی تمجید وتعظیم کی اور اس کے فلسفی نظریہ کی تعریفیں کیں تو یونیورسٹی میں اس کی شخصیت اور اس کے فلسفی نظریہ کے بارے میں ایک بے مثال ہلچل مچ گئی۔

یہ اوران جیسے دوسرے واقعات ایسے نمونے ہیں جو عالمی سطح پر ہماری اجتماعی حیثیت اور ہماری فکری شخصیت کی ہویت کو واضح کرکے بتاتے ہیں کہ ہماری فکری شخصیت طفیلی ہے اور ہمارے فکری سرمایہ میں سے جو کچھ چوروں سے بچا ہے وہ جوتشیوں کے حصہ میں آیا ہے۔

تحریر :  استاد علامہ طباطبائی

mahdimission


متعلقہ تحريريں :

غزوہء بني مصطلق يا مريسيع

تبليغ اسلام کے سلسلے ميں چند پيچيدگياں اور اُن کے حل

مدينہ لشکر کفار کے محاصرے ميں

لشکر کي روانگي سے رسول خدا کي آگاہي

غزوہء خندق (احزاب)