توحيد و شرک کي حدود
توحيد و شرک (خواہ نظري ھو يا عملي) اس کي دقيق حدود کيا ھيں؟ توحيد کيا ھے؟ اور شرک کيا ھے؟ عمل توحيدي، کونسا عمل ھے؟ اور کونسا عمل، عمل شرک ھے؟
آيا خدا کے علاوہ کسي موجود پر عقيدہ رکھنا شرک ھے؟ (شرک ذاتي) اور توحيد ذاتي کا لازمہ يہ ھے کہ ھم خدا کے علاوہ کسي بھي موجودات پر (اگر چہ اسي کي مخلوق کے عنوان سے ھي ھو) کوئي عقيدہ نہ رکھيں؟ (وحدت وجود کي ايک قسم)
روشن ھے کہ مخلوق خدا فعل خدا ھے، خدا کا فعل خود خدا کي ايک شان ھے اور اس کے مقابلہ ميں کوئي اس کا ثاني نھيں ھے، خدا کي مخلوقات اس کے فيض کي تجلي ھيں، وجود مخلوق پر اس جہت سے اعتقاد رکھنا کہ وہ مخلوق ھے، توحيد پر اعتقاد کا دوسرا حصہ ھے نہ کہ توحيد کي ضد، لہ?ذا توحيد و شرک کا معيار کسي دوسري چيز کا وجود رکھنا يا نہ رکھنا، نھيں ھے۔
آيا تاثير و تاثر اور سببيّت و مسببيت ميں مخلوقات کے کردار پر اعتقاد رکھنا شرک ھے؟ (يعني خالقيت و فاعليت ميں شرک) آيا توحيد افعالي کا لازمہ يہ ھے کہ ھم کائنات کے سببي اور مسببي نظام کا انکار کريں؟ اور ھر اثر کو مستقيماً اور بلاواسطہ خدا سے صادر ھونا تصور کريں؟! اور اسباب کے لئے کسي اثر کے قائل نہ ھوں؟
مثلاً يہ عقيدہ رکھيں کہ آگ، جلانے ميں، پاني، سيراب کرنے ميں، بارش، گھاس اُگانے ميں اور دوائي، مريض کو شفا بخشنے ميں کوئي کردار نھيں رکھتي ھے؟ يعني بس خدا ھے جو بطور مستقيم جلاتا ھے، سيراب کرتا ھے، مستقيماً اُگاتا ھے اور مستقيماً شفا ديتاھے؟! کيا ان عوامل کا ھونا اور نا ھونا برابر ھے؟!
يھاں پرجو چيز قابل دقت ھے وہ يہ کہ خدا کي عادت ھے کہ وہ اپنے کاموں کو ان امور (اسباب) کي موجودگي ميں انجام ديتا ھے مثلاً اگر ايک انسان کي عادت يہ ھو کہ:
وہ اپنے سر پر ٹوپي رکھ کر خط لکھتا ھو، خط کے لکھنے ميں سر پر ٹوپي کا ھونا نہ ھونا کوئي اثر نھيں رکھتا ھے ليکن خط لکھنے والا کبھي يہ نھيں چاہتا کہ وہ ٹوپي کے بغير خط لکھے۔
خدا کے امور بھي اسي نظريہ کے مطابق ھيں يعني ان امور کا نہ ھونا جن کو عوامل و اسباب کھا جاتا ھے، اسي قبيل سے ھيں، (يعني خدا نے اپني عادت بنالي ھے کہ وہ اپنے امور کچھ افراد کے ذريعہ سے انجام ديتا ھے)۔
اور اگر اس کے علاوہ ھم قائل ھو جائيں تو گويا فاعليت ميں ھم ايک ھي کے شريک نھيں بلکہ بہت سے شرکاء کے قائل ھوگئے ھيں (جبريوں اور اشاعرہ کا نظريہ) يہ نظريہ بھي صحيح نھيں ھے۔
جيسا کہ مخلوق کے وجود پر اعتقاد، خدا کے مقابل شرک ذاتي، قطبي وجود اور دوسرے خدا پر اعتقاد کے ساتھ مساوي نھيں ھے بلکہ خدائے وحدہ لاشريک کے وجود پر اعتقاد کا مکمِّل اور متِمّم ھے، نظام کائنات ميں مخلوقات کے کردار پر اور تاثير و سببّيت پر اعتقاد رکھنا بھي (جيسا کہ موجودات ذات ميں استقلال نھيں رکھتے ھيں ايسے ھي تا?ثير ميں بھي استقلال نھيں رکھتے ھيں: وہ موجود ھيں تو اس کے وجود سے، موثر ھيں تو اس کي تا?ثير سے) خالقيت ميں شرک کا باعث نھيں ھے بلکہ خدا کي خالقيت کے اعتقاد کا مکمل اور متمم ھے۔
ھاں اگر مخلوقات کے لئے، تا?ثير کے لحاظ سے استقلال و تفويض کے قائل ھو جائيں اور اس طرح اعتقاد رکھيں کہ جھان کي طرف خدا کي نسبت ايسے ھے کہ جيسے ايک انجينئر کي نسبت، صنعت کي طرف ھوتي ھے (مثلاً گاڑي) اپني پيدائش ميں ايک انجينئر (بنانے والے) کي محتاج ھے ليکن جب بن کر تيار ھو جائے تو وہ اپنا کام اپنے سسٹم کے مطابق جاري رکھتي ھے۔انجينئر فقط گاڑي کے بنانے ميں کردار ادا کرتا ھے نہ کہ تيار ھونے کے بعد اس کي کار کردگي ميں، اگر بنانے والا مستري مر جائے تب بھي گاڑي اپنا کام جاري رکھے گي۔
اگر ايسا عقيدہ ھو تو عوامل جھان:
پاني، بارش، بجلي، حرارت، خاک، گھاس، حيوان اور انسان وغيرہ کي نسبت خدا کے ساتھ ايسي نسبت ھے کہ (جيسي گاڑي اور اس کے بنانے والے کے درميان نسبت ھوتي ھے) جو واقعاً شرک ھے، ( جيسا کہ معتزلہ اس کے قائل ھيں)
مخلوق اپني حدوث و بقاء ميں خدائے خالق کي محتاج ھے، بقاء اور تاثير گذار ميں بھي اسي مقدار ميںمحتاج ھے کہ جتنا حدوث ميں ھے، جھان کا عين فيض، عين تعلق، عين ارتباط، عين وابستگي، صرف اسي کي ذات سے ھے لہذا اس لحاظ سے اشياء کي تاثير و سببيّت، خدا کي عين تاثير و سببيّت ھے، جھان کي قوتِ خلاقيت جو انسان و غير انسان ھر ايک ميں موجود ھے، عين خلاقيتِ خداوند عالم اور اس کي فاعليّت کي بسط (وسعت) ھے بلکہ يہ اعتقاد کہ اس دنياميں اشياء کا کردار ادا کرنا شرک کا باعث ھے خود ايک طرح کا شرک ھے۔
کيونکہ يہ اعتقاد اس نظريہ کي وجہ سے پيدا ھوتا ھے کہ بے خبري ميں موجودات کي ذات کے لئے ذاتِ حق کے مقابل ھم استقلال کے قائل ھوگئے ھيں اور اس بناء پر اگر موجودات کو ئي تا?ثيري نقش رکھتے ھوں تو تاثيرات کي نسبت دوسرے قطبوں سے دے دي گئي ھے، پس شرک و توحيد کے درميان حدود يہ نھيں ھيں کہ غير خدا کے لئے سببيّت اور تاثيرات ميں کسي نقش کے قائل ھوں يا قائل نہ ھوں۔
جاري ہے
اردو مکارم ڈاٹ او آڑ جي
متعلقہ تحريريں :
حقيقت عصمت (حصّہ ششم)
حقيقت عصمت (حصّہ پنجم)
حقيقت عصمت (حصّہ چهارم)
حقيقت عصمت (حصّہ سوّم)
حقيقت عصمت (حصّہ دوّم)