قمه زني و عشق و عقل و معرفت
قمه زني و عشق و عقل و معرفت 1
قمه زني و عشق و عقل و معرفت 2 قمه زني و عشق و عقل و معرفت 3 سوال:
کہا جاتا ہے کہ قمہ اور زنجير کا تعلق عشق و معرفت سے ہے نہ کہ عقل سے؛ عشق و محبت اور عقل و معرفت کي تشريح فرمائيں؟
جواب:
جواب: محبت، خدا تک پہنچنے کا سب قريبي راستہ ہے، ہمارے پاس محبت سے زيادہ قريبي کوئي بھي راستہ نہيں ہے- جتنا ايمان زيادہ قوي ہوگا محبت کي شدت ميں بھي اتنا ہي اضافہ ہوتا ہے:
{وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبّاً لِّلّهِ}- (1)
" ايمان والوں کي تمام تر محبّت خدا سے ہوتي ہے"-
بنيادي طور پر يہ خدا کي محبت والي بحث بہت ہي عظيم بحث ہے--- اگر کسي کے دل ميں خدا کي محبت قرار پائے وہ دل کسي بھي دوسري طرف نہيں ديکھ سکتا-
{اَلمُحَبّةُ نارٌ تُحرِقُ ما سِوَي المَحبُوب}
محبت وہ آگ ہے جو محبوب کے سوا ديگر تمام چيزوں کو جلاکر راکھ کرديتي ہے؛ محبوب کے سوا اور کوئي بھي دوسري چيز باقي نہيں رہتي--- اگر ہم چاہيں کہ ہماري محبت اللہ کے ساتھ بڑھ جائے تو ہميں اس کي معرفت ميں اضافہ کرنا پڑے گا- اب ہم کيا کريں کہ ہماري معرفت ميں اضافہ ہو اور اس معرفت کے نتيجے ميں خدا کے ساتھ ہماري محبت ميں اضافہ ہو؟ (1)
حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں:
{لَا يَقْبَلُ اللّهُ عَمَلًا إِلّا بِمَعْرِفَةٍ}- (2)
"خدا معرفت کے بغير کوئي بھي عمل قبول نہيں فرماتا"-
يہ گمان کرنا درست نہيں ہے کہ تو جو بھي کام کرے وہ خدا کي بارگاہ ميں قبول ہوتا ہے؛ نہيں! بلکہ انسان کو عاقل ہونا چاہئے- (3)
اسحاق بن عمار امام صادق عليہ السلام کي خدمت ميں عرض کيا: اے فرزند رسول خدا (ص)! ہمارا ايک ہمسايہ ہے جو بہت زيادہ نماز پڑھتا ہے؛ بہت زيادہ صدقہ ديتا ہے اور کثيرالحج ہے اور بہت زيادہ پيسے خرچ کرتا ہے - بعض لوگ يہ سارے کام بجا لاتے ہيں اور ان اعمال کے ساتھ ساتھ دوسرے اعمال بھي انجام ديتے ہيں مگر يہ آدمي ديگر اعمال سے بھي دور تھا - عرض کيا کہ اس آدمي ميں کوئي عيب نہيں ہے-
-------------------
40- سورہ بقرہ (2) آيت 165-
2- اصول كافى جلد 1 صفحه: 54 رواية: 2-
3- علامہ سيد محسن امين، التنزيہ لاعمال الشبيہ، فارسي ترجمہ جلال آل احمد، ص 20-