• صارفین کی تعداد :
  • 3566
  • 8/4/2011
  • تاريخ :

بجلي اب چاند سے

moon
آج تک تو يہ ہوتا آيا ہے کہ شاعر اور عاشق چاند کي طرف ديکھا کرتے تھے يابچے اس ميں چرخا کاتنے والي بڑھيا کو تلاش کرتے تھے، يا سمندر کي موجيں بےتاب ہوکراس کي جانب لپکتي تھيں ياچکور ديوانوں کي طرح بلنديوں کي سمت اڑان بھرنے لگتا تھا، مگر ايسا پہلي بار ہورہاہے کہ چاند کومردہ چٹانوں اور ريگستانوں کا ايک سيارہ سمجھنے والے سائنس دان کرہ ارض کي زندگي روشن کرنے کے ليے اس کي طرف ديکھ رہے ہيں-

اب تک تو چاند سے ہميں چاندني مل رہي تھي مگرجلد ہي  وہاں سے ہمارے  ليے بجلي بھي آنے لگے گي-

تاہم چاند سے بجلي اس طرح نہيں آئے گي جس طرح خاموش راتوں ميں ہمارے آنگنوں ميں چاندني اترتي ہے بلکہ بڑے بڑے بجلي گھروں کو چلانے کے ليے ايندھن چاند سے آيا کرے گا اور سائنس دانوں کا کہناہے کہ اس صدي  کے نصف کے بعد چاند زمين پر ماحول دوست توانائي کا ايک اہم ذريعہ بن سکتا ہے-

ماہرين کے حاليہ جائزوں کے مطابق زمين پر موجود تمام معدني ايندھن کے استعمال سے ہم جتني توانائي حاصل کرسکتے ہيں ، چاند اس سے دس گنا زيادہ توانائي فراہم کرسکتا ہے-

طبعيات اور فلکيات کے ماہرين کو چاند ميں چھپي اس دولت کا علم کچھ عرصے سے تھا مگر اس کا انکشاف ايک ايسے وقت ميں کيا گياہے جب تيل کي بڑھتي ہوئي قيمتوں ميں اضافے کے رجحان اور عالمي حدت ميں اضافے سے پيدا ہونے والے مسائل کے باعث دنيا کے بہت سے ملکوں کو بجلي کي قلت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے-

اگэہ ماحول دوست بجلي پيدا کرنے کے کئي طريقوں کو فروغ دينے کي کوششيں کي جارہي ہيں مگرفي الحال سورج اور ہوا سے بجلي پيدا کرنے کي ٹيکنالوجي اتني ترقي يافتہ نہيں ہے جو بڑھتي ہوئي ضرورتوں کو پورا کرسکے- جوہري ايندھن بجلي پيدا کرنے کا ايک مؤثر ذريعہ بن سکتا ہے مگر روس کے چرنوبل اور جاپان کے فوکوشيما جوہري بجلي گھروں  کے حادثوں  نے اس کے محفوظ ہونے پر کئي سوال کھڑے کرديے ہيں- چنانچہ ماہرين کي نظريں اب چاند پر لگ گئي ہيں-

مگر سوال يہ ہے کہ چاند پر چرخہ کاتنے والي بوڑھيا کے سوا ايسي  کونسي چيز ہے جو زمين پر بجلي پيدا کرنے کے کام آسکتي ہے؟  ماہرين کہتے ہيں کہ اس چيز کا نام ہے ہيليم تھري-

مگر ہيليم تھري کس چڑيا کا نام ہے-

ہيليم تھري اگر پرندہ ہوتا تواپني شاہانہ خصوصيات کي بنا پر  شايد اس کا نام ہما ہوتا اور وہ جس پر مہربان ہوتا اسے مالامال کرديتا- مگر ہيليم تھري ايک جوہري آئسوٹوپ ہے- دنيا کي مہنگي ترين  چيز--- ہر آنے والے دن کے ساتھ اس کي مانگ بڑھ رہي ہے اور قيمت ميں تيزي سے اضافہ ہورہاہے- ان دنوں اس کے ايک گرام کي قيمت سات ہزار ڈالر ہے جب کہ ماہرين کا کہناہے کہ آنے والے برسوں ميں اس کي قيمت ميں کئي گنا اضافہ ہوسکتا ہے-

قيمتي ہونے  کي وجہ يہ ہے کہ ہيليم تھري ايک انتہائي ناياب مادہ ہے اور کرہ ارض پر اس کي کل مقدار کا تخمينہ محض 30 کلوگرام ہے- جب کہ ماہرين کے اندازے کے مطابق چاند پروہ دس لاکھ ٹن سے زيادہ موجود  ہے -

في الحال ہيليم تھري کا زيادہ تر استعمال جوہري ہتھياروں اورجوہري مواد کا کھوج لگانے کے ليے کيا جارہاہے-  وہ تابکاري خارج نہيں کرتا مگر  انتہائي صحت کے ساتھ  کسي بھي تابکارمادے کي موجودگي کي نشان دہي کرسکتا ہے-

ليکن اب يونيورسٹي آف وسکانسن کے سائنس دانوں کي ايک ٹيم نے ہيليم تھري سے جوہري ري ايکٹر چلانے کا کامياب تجربہ کيا ہے- انٹرنيٹ پر آنے والي ميڈيا сوъس کے مطابق ٹيم کے انچاэ جيرالڈ کولسنسکي  کا کہناہے کہ ان کي ٹيم 25 سال سے اس پراجيکٹ پر کام کررہي تھي - اگэہ حاليہ کاميابي بہت اہم ہے، ليکن  ابھي بہت سا سفر باقي ہے-

ہيليم تھري کے ري ايکٹر کا سب سے بڑا فائدہ يہ ہے کہ اس سے تابکاري خارج نہيں ہوتي اوروہ ديگر جوہري ري ايکٹروں کي طرح انساني صحت کے ليے کوئي چيلنج پيدا نہيں کرسکتا-

کولسنسکي  کي کاميابي ايک ايسے وقت ميں سامنے آئي ہے جب امريکي خلائي ادارے ناسا نےاپني 30 سالہ خلائي شٹل سروس ختم کردي ہے اور مستقبل ميں وہ اپني خلائي مہمات کے ليے پرائيويٹ کمپنيوں پر انحصار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے- جب کہ پرائيويٹ کمپنيوں کو اپني شٹل سروس شروع کرنے ميں ابھي کئي سال لگ سکتے ہيں-

کولسنسکي کہتے ہيں کہ چاند پر اربوں کھربوں ڈالر کا خزانہ موجود ہے اور ہميں نہ صرف يہ کہ وہاں جانا ہوگا بلکہ وہاں اپني تنصيبات بھي قائم کرنا ہوگي-

ماہرين کا اندازہ ہے کہ اس منصوبے پر اگلے دو عشروں ميں 15 سے 20 ارب ڈالر لگ  سکتے ہيں جب کہ زمين پر ايک بڑا جوہري بجلي گھرقائم کرنے پر بھي تقريباً اتني ہي لاگت آتي ہے-

کولسنسکي کے ساتھ اس پراجيکٹ پر کام کرنے والے ايک اور سائنس دان ڈاکٹرشمٹ کہتے ہيں کہ چاند پر دوبارہ جانا اس ليے بھي ضروري ہے کہ وہاں توانائي پيدا کرنے کے اتنے وسائل موجود ہيں جو ہماري زمين کو مستقبل ميں ہزاروں برسوں تک روشن رکھ سکتے ہيں-

چاند سے بجلي اس وقت ايک خواب سا لگتا ہے ليکن آج کي ہر ايجاد کل ايک خواب ہي تھي-

تحریر: جمیل اختر

متعلقہ تحريريں:

انٹرنيٹ کا استعمال کرتے وقت محتاط رہيں ( حصّہ دوم )

انٹرنيٹ کا استعمال کرتے وقت محتاط رہيں

سائبر حملے ميں ہزاروں ويب سائٹس متاثر

ايران: شمسي توانائي سے چلنے والي گاڑي متعارف

ايک گھنٹے ميں 760 باد و باراں طوفان