• صارفین کی تعداد :
  • 4374
  • 7/11/2009
  • تاريخ :

اسلام میں طلاق (حصّہ ششم)

طلاق

مغربی معاشرے کا سب سے بڑا درد سر ارکان خانوادہ کا متزلزل ھونا ھے مغربی دنیا کی موجودہ آزادی و بے راہ روی کلیسا کی زبردستیوں کا رد عمل ھے کیونکہ عیسائی مذھب میں سرے سے طلاق کا وجود ھی نھیں ھے ۔ کلیسا کی سختیوں سے مجبور ھو کر حکومتوں نے طلاق کو قانونی حیثیت دی ۔ مثلا اکتوبر ۱۷۸۹ءء کے انقلاب سے پھلے عیسائی مذھب کی بنا ء پر فرانس میں طلاق ممنوع چیز تھی لیکن جدید مدنی حقوق کی تنظیم کے وقت ۱۸۰۴ءء میںلوگوں کے دباؤ کی وجہ سے طلاق کو قانونی حیثیت دی گئی لیکن اس پندرہ سال کے اندرجس میں طلاق کوقانونی حیثیت حاصل تھی۔ بڑی سرعت کے ساتہ طلاق کی تعداد میں کافی اضافہ ھوگیااور پھرکلیساکے دباؤمیں آکر ۱۸۱۶ء میں قانون طلاق کو ختم کر کے ” تفریق جسمانی “ نام کے قانون کو نافذ کیا گیا لیکن پھر لوگوں کا شدید دباؤ پڑنے پر حکومت نے مجبور ھو کر ۱۸۸۴ء میں محدود طریقے پر عورت و مرد کو قانوناً حق طلاق دیا مندرجہ ذیل مقامات پر قانوناً عورت و مرد کو حق طلاق حاصل ھے ۔

 ۱۔ اگر مرد یا عورت کسی ایسے جرم کے مرتکب ھو جائیں جس کی بناء پر قانوناً مندرجہ ذیل کسی ایک سزا کے مستحق ھو جائیں ۔ پھانسی ، حبس دوام ، ملک بدری اجتماعی حقوق سے محرومیت ، محنت شاقہ کے ساتہ وقتی قید ۔

 ۲۔ دونوں میں سے کوئی زنا کا مرتکب ھو جائے لیکن عورت کو حق طلاق اس صورت میں ھو گا کہ جب مرد اس کے گھر میں زنا کا ارتکاب کرے ۔ پولیس کی نظر میں مکمل طور سے یہ خیانت ثابت ھو ۔ اس بنا پر جب میاں بیوی ایک دوسرے سے علاحدگی اختیار کرنا چاھیں تو تیسرے فریق کی بھی موافقت کی ضروری ھو گی اس طرح کہ وقت معین پر سوتے وقت ،شوھر پولیس کو لاکر دکھائے کہ میری بیوی دوسرے مرد کے ساتہ سو رھی ھے ۔پھر جب پولیس شوھر کے ساتہ آکر کسی غیر مرد کو سوتا ھوا دیکھے گی تب جا کر طلاق ھو گی ۔

ذرا سوچئے کہ حق طلاق کتنی بے حیائی کے بعد حاصل ھوتا ھے ۔ آج کی متمدن دنیا ایک طرف تو عورت کو اجتماعی و سیاسی امور میں شریک ھونے کا حق دلاتی ھے اور دوسری طرف اس کی عزت و شرف کو باز یچھٴ اطفال بناتی ھے اور کس قدر بے حیائی کا مظاھرہ کراتی ھے ۔

 ۳۔ شوھر یا عورت ایک دوسرے کو آزار پھنچائیں یا اھانت کریں ، یا فحش کلامی کریں ۔ اسی طرح کے دوسرے مواقع  ھیں جھاں ایک دوسرے کو طلاق لینے کا حق حاصل ھے ۔

 موجودہ دور میں فرانس ، پرتگال اور اٹلی کے اندر ” تفریق جسمانی “ کا رواج ھے ۔ تفریق جسمانی کا مطلب یہ ھے کہ علیحدگی چاھنے والے میاں بیوی الگ الگ وقتی طور پر زندگی بسر کریں ۔ اس جدائی کی مدت زیادہ سے زیادہ تین سال ھوتی ھے اور اس مدت میں اگر چہ عورت جنسی آسودگی دینے سے اور مرد نان و نفقہ دینے سے معاف ھیں مگر دوسرے تمام آثار زوجیت باقی رھتے ھیں ۔ اس مدت کے بعد بھی اگر عورت یا مرد مشترک زندگی بسر کرنے پر تیار نہ ھوں تو طلاق دی جائے گی ۔

                                                                                                                                                               جاری هے


متعلقہ تحریریں:

اسلام  میں طلاق  (حصّہ دوّم )

اسلام  میں طلاق (حصّہ اوّل )