• صارفین کی تعداد :
  • 5291
  • 3/16/2009
  • تاريخ :

اسلام  میں طلاق  (حصّہ دوّم )

 طلاق

 اسلام کی نظر میں بقائے زوجیت اور استحکام خانوادہ نھایت ضروری چیز ھے اسی لئے نظام خانوادے کو محفوظ کرنے کی خاطر بعض قسم کی آزادیوں پر پابندی لگا دی ھے اور طلاق کے مسئلہ میں عورت کے اختیار مطلق کو سلب کرکے محدود اختیار دیکر عورت کے مصالح کو محفوظ کرنا چاھا ھے کیونکہ اگر مرد و عورت دونوں کو طلاق کا اختیار دے دیا جائے تو احتمال طلاق دو گنا ھو جائے گا اور ایسا رشتہ جو دونوں طرف سے ٹوٹ جانے والا ھو طرفین کے اعتماد کو متزلزل کر دے گا ۔ لھذا یہ حق کسی ایک ھی کے ھاتہ میں ھونا چاھئے اور چونکہ انتخاب شوھر میں عورت کو کلی اختیار دیا گیا ھے اس لئے طلاق میں بر بنائے انصاف مرد کو یہ اختیار ملنا چاھئے اور اسلام نے یھی کیا بھی ھے ۔

 

 مرد اور عورت کی جسمانی ساخت ایک کو دوسرے سے جدا کرتی ھے اور دونوں کے فطری خصائص بھی الگ الگ ھیں چنانچہ مرد میں قوت فکریہ کا غلبہ ھے ۔ لیکن عورت کے اندر ” احساس و عاطفہ “ کو غلبہ حاصل ھے چنانچہ

ڈاکٹر الکسس کارل کھتا ھے:,,مرد و عورت کے بدن اور بدن کے تمام اجزاء خصوصا اعصابی سلسلے اپنی اپنی جنس کی نشان دھی کرتے ھیں ۔ اس لئے تعلیم و تربیت کے ماھرین کو مرد و عورت کے عضوی اختلاف اور ان کے فطری وظائف کو پیش نظر رکھنا چاھئے ۔

 اس اساسی نکتہ کی طرف توجہ ھمارے آئندہ تمدن کی بنیادمیں کافی اھمیت رکھتی ھے اور کسی بنیادی اور اھم نکتہ کی طرف توجہ نہ ھونے کی وجہ سے عورتوں کی ترقی کے طرفدار مرد و عورت کے لئے ایک قسم کی تعلیم کے بارے میں سوچتے ھیں اور دونوں کے مشاغل و اختیارات اور عھدے بھی ایک ھی قسم کے چاھتے ھیں ۔

مندرجہ بالا تحریر عورت و مرد کے حقوق وظائف و ذمہ داریوں کے اختلاف پر اچھی خاصی روشنی ڈالتی ھے اسی دقیق حساب کی بنا پر اسلام نے حکم دیا ھے کہ ” طلاق کا اختیار مرد کو ھے “ ۔

 عورت کے ظرف اور مزاج ( جو سراپا ھیجان و تلوّن ھے ) کو دیکھتے ھوئے یہ بات کھی جا سکتی ھے کہ ضروری اور مشترک زندگی عدم استحکام کی صورت میں عورت اس بات پر قادر نھیں ھے کہ اپنے حق سے استفادہ کر سکے بلکہ معمولی بھانہ بھی اس کی مشترک زندگی کے خاتمے اور خانوادے کے سکون کو غارت کر دینے کے لئے کافی ھے۔

 جس طرح اسلام نے تشکیل خانوادہ کے لئے ھر طرح کی سھولتوں کو مھیا کیا ھے اور اس میں پیش آنے والی مشکلات و رکاوٹوں کو ختم کیا ھے اسی طرح طلاق دینے اور خانوادہ کے سکون کو غارت کر دینے کے لئے بھی بھت زیادہ سختی برتی ھے اسلام کسی بھی قیمت پر رشتہٴ ازدواج کو توڑنے اور گھر کے سکون کو درھم و برھم کرنے پر تیار نھیں ھے۔

اسلام کا مطمح نظریہ ھے کہ تمام خانوادے امن و امان سے رھیں، دلوں کو سکون رھے ،مرد و عورت ھم آھنگی کے ساتہ زندگی بسر کریں اسی لئے ابتدائی مرحلے میں ھی اپنی ساری کوشش صرف کر دیتا ھے کہ عقد نکاح مضبوط سے مضبوط تر ھو ، ھاں اگر اصلاح سے مایوس ھو جائے تب بات اور ھے ۔

چنانچہ ایک طرف مردوں کو مخاطب کر کے قرآن کھتا ھے ۔ عورتوں کے ساتہ نیک برتاوٴکرو اب اگر تم انھیں ناپسند بھی کرتے ھوتو ھوسکتاھے کہ تم کسی چیز کوناپسند کرتے ھواور خدااسی میں خیرکثیر قراردیدے  ۔،،

                                                                                                                                                        جاری ہے