• صارفین کی تعداد :
  • 3493
  • 11/11/2011
  • تاريخ :

ناقص الخلقت بچّے

ناقص الخلقت بچّے

بعض بچے پيدائشے طور پر ناقص الخلقت ہوتے ہيں يا بعد ميں کسى حادثے کى وجہ سے ان کے بدن ميں کوئي نقص پيدا ہوجاتا ہے اندھے لولے لنگڑے گونگے بہرے اور اسى طرح کے دوسرے نقائص ميں بہت سے افراد مبتلا ہوتے ہى بعض بچے اگر چہ بدن کے کسى عضو کے اعتبار سے تو نقص نہيں رکھتے ليکن مناسب قامت اور مکمل خوبصورتى سے محروم ہوتے ہيں کالے ، پيلے ، کمزور ، بہت چھوٹے ، بہت بڑے ، بہت موٹے، چھوٹى ناک والے ، بڑے منہ والے يا چھوٹے منہ والے ، اندر کو دھنسى ہوئي آنکھوں والے ، اور بڑے دانتوں والے ، ان نقائص کے حامل افراد اگر چہ کسى ع ضو کے نقص ميں مبتلا نہيں ہوتے ليکن دوسروں کى نسبت مکمل اور خوبصورت بھى نہيں ہوتے اسى ميں ان افراد کا کوئي قصور نہيں ہے خدا نے انہيں اس طرح پيدا کيا ہے نظام خلقت ميں تمام اشياء خوبصورت اور مناسب ہيں يہ تو ہمارى کم فہمى اور کم ذوقى کا قصور ہے کہ کسى کو خوبصورت سمجھتے ہيں اور کسى کو بد صورت ناقص اور معذور افراد چونکہ اپنے نقص کى طرف متوجہ ہوتے ہيں لہذا ہميشہ غم و اندوہ ميں مبتلا رہتے ہيں وہ احساسکمترى ميں مبتلا رہتے ہيں اگر اس احساس کو ختم نہ کيا جائے بکلہ اس کى تائيد کى جائے تو وہ ہميشہ کے ليے احساس کمترى اور کم نگہى کا شکار ہوجائيں گے جن لوگوں کے دل ميں احساس کمترى گھر کرلے تو وہ تو اپنى شخصيت گنوابيٹھتے ہيں اپنے تئيں بے لياقت ، ناچيز اور نااہل سمجھتے ہيں وہ ذمہ داريوں کو قبول کرنے اور کاموں کے ليے لپک کے آگے بڑھنے سے گريزان رہتے ميں گويا ذلت و بدبختى کے سامنے ہتھيار پھينک ديتے ہيں ممکن ہےکبھى وہ اپنے اظہار وجود کے ليے قتل يا کسى دوسرے جرم کا ارتکاب کر بيٹھيں اپا ہج قال رحم ہوتے ہيں لوگوں کى ذمہ دارى ہے کہ وہ ان کے نقص کو بالک نظر انداز کر ديں ان کے ساتھايسا سلوک کريں کہ جيسا وہ ديگر افراد کے ساتھ کرتے ہيں اور ان کے نقص کے بارے ميں نہ سوچيں نہ ان پر طنز کريں نہ تمسخر اڑائيں اور نہ ان کے نازک دلوں پر زبان کے چرکے لگائيں دين مقدس اسلام نے عيب جوئي ، تمسخر بازى ، سرزنشاور دوسروں کى ذات ميں کيڑے نکالنے کو گناہوں کبيرہ ميں سے اور حرام قرار ديا ہے اور اس بارے ميںاسقدر تاکيد کى ہے کہ اپنے پيروکاروں کو حکم ديا ہے کہ آپ ہرگز کوئي ايسا کام نہ کريں کہ ناقص الخلقت افراد اپنے نقص کى طرف متوجہ ہوجائيں پيغمبر اسلام صلى الله عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں :

مصيبت ميں گھر سے افراط اور کوڑھيوں کى طرف زيادہ نہ ديکھيں کيوں کہ ممکن ہے آپ کى نظر يں ان کے ليے باعث حزن و ملال ہوں

علاوہ ازيں مسلمانوں کى ذمہ دارى ہے کہ ايسے افراد کے ساتھ زيادہ محبت اور ہمدردى کريں اور اس طرح سے ان کے احساس کمترى کا ازالہ کريں اور ان ميں احساس زندگى کو تقويت بخشيں ايسے بچوں کےماں باپ کى ذمہ دارى بھى سنگين تر ہے اسامر پر ان کى توجہ ہونا چاہيے کہ ناقص افراد بھى ترقى اورکمال کى صلاحيت رکھتے ہيں اگر ان کى صلاحيتوں کا اندازہ لگاياجائے اور ان ديگر قوتوں کو ابھار کر تقويت پہنچائي جائے تو وہ کسى نہ کسى علمى ، سائنسى يا فنى شعبے ميں مہارت حاصل کرسکتے ہيں اور اس طرح سے اپنے نقص کا ازالہ کرسکتے ہيں اور معاشرے ميں بلند مقام حاصل کرسکتے ہيں اور اس طرح سے اپنے نقص کا ازالہ کرسکتے ہيں اور معاشرے ميں بلند مقام حاصل کرسکتے ہيں کتنے ہى ناقص افراد ہيں کہ جو کوشش اور ہمت سے ايسے بلند مقام پر پہنچے ہيں کہ جسسے ان کا نقص بہت ہى پيچھے رہ گيا ہے ماں باپ کو چاہيے کہ اپنى اولاد کے نقص سے بالکل چشم پوشى کريں اور اس بارے ميں بالکل بات نہ کريں يہاں تک کہ مذاق ، اظہار ہمدردى يا غصّے کى صورت ميں بھى ذکر نہ کريں ايسے بچوں کے ساتھ بھى ان کا سلوک بالکل ايسا ہو جيسا دوسرے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے اگر خود بچے اس سلسلے ميں پريشانى کا اظہار کريں تو کوششکريں کہ اس نقص کو غير اہم قرار ديں اور اسے اس کى دوسروى صلاحيتں يا ددلائيں ان ان کى تعريف و ستائشے کريں ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ پورى توجہ سے تحقيق کريں کہ بچوں ميں کيا کيا استعداد اور صلاحيت موجودہے اور اس سلسلے ميں جاننے والے افرا د سے مشورہ کريں اور پھر بچے کو اس طرف متوجہ کريں اور اس بارے ميں ان کى تائيد کريں اور انہيں ترغيب ديں اگر ماں باپ اس سلسلے ميں کچھ توجہ کريں تو وہ اپنے ناقص بچے کى اور معاشرے کى بہت بڑى خدمت سرانجام ديں گے

اس صورت ميں اس طرح کا شخص گويا اپنى کھوئي ہوئي صورت کو پالے گا اور اپنى خداد اد صلاحيتوں سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھا سکے گا اور معاشرت ميں بھى وہ ايک اہم مقام حاصل کرسکے گاايک لڑکى اپنے خط ميں لکھتى ہے ...مير ى ايک سہيلى نے اپنى زندگى کى داستان مجھے اس طرح سنائي ميں تيرہ سال کى تھى ايک دفعہ ميں چھت سے گڑپڑى ميرى ريڑھ کى ہڈى پر چوٹ لگى جسکى وجہ سے ميں معذور ہوگئي کچھ عرصہ ہسپتال ميں ميرا علاج ہوتا رہا اگرچہ مجھے تکاليف تھى ليکن مجھے بعد ميں سمجھ آئي کہ يہ دن ميرے ليے بہت بہتر تھے جب مجھے ہسپتال سے چھٹى ملى اور ميں گھر پہنچى تو ميرے والدين نے مجھے ازلى دشمنوں کى طرح ديکھتا شروع کرديا انہوں نے کہا تم ہمارے ليے باعث ننگ و ارہو ہم لوگوں کو کيسے بتائيں کہ ہم ايک معذور بيٹى کے والدين ہيں تم ہميشہ ہم پر سوار ہوگى وہ مجھے دلاسہ دينے کى بجائے دن رات ايسى ہى باتيں کرتے اور ميرى پمردہ روح کو اور چرکے (زخم لگاتے وہ يہ نہيں سوچتے تھے کہ ميں بے قصور ہوں ميں روزانہ کئي مرتبہ خدا سے اپنى موت کى دعا کرتى تا کہ اس سخت زندگى سے ميرى جان چھوٹ جائے ميں اپنے مفلوج پاۆ ں کے ساتھ سارا دن گھر ميں کام کرتى ليکن کوئي ميرى دلجوئي نہ کرتا مجھے اصلاً اپنى بيٹى ہى نہ سمجھتے ميرى جوانى کے بہترين ايام رنج و درد کے عالم ميں گزرے پندرہ سال کى عمر ميں ميں ايک پچاس سالہ بوڑھى کى طرح نظر آتى جب ميرے ماں باپ مر گئے ميرے بہن بھائي بھى بچپن ہى سے مجھ سے متنفر تھے وہ بھى ميرى احوال پرسى نہ کرتے پھر ميرى شادى کردى گئي ميرے شوہر بہت مہربان شخص تھے مجھ سے بہت محبت کرتے اس وقت تک مجھے محبت کى ٹھنڈى چھاۆ ں  نصيب نہيں تھى اب ميرى حالت دن بدن اچھى ہونے لگى اب ميں بالکل تندرست ہوگئي ہوں خدا نے مجھے اولاد بھى عطا کى ہے اور ميں خوش و خرم اور صحت و سلامتى کے ساتھ زندگى گزار رہى ہوں.


متعلقہ تحريريں:

ناراضگي کي حد  سے  تين قدم پہلے ہي رک جاۆ (حصّہ دوّم)