اک پگھلتی ہوئی روشنی کے تلے
اک پگھلتی ہوئی روشنی کے تلے |
سب دیے بجھ بھی گۓ دور ہو بھی گۓ |
دیکھ لو آ کہ تم کب سے خاموش ہوں |
درد بھی سب پرانے نۓ ہو گۓ |
گھپ اندھیرا ہمیں راس آ بھی گیا |
روشنی لے کے تم گھر سے چل بھی پڑے |
دھول پچھلے سفر کی بھی بالوں میں تھی |
پھر نۓ اک سفر پہ نکل بھی پڑے |
وہ سکندر ابھی تک تو راہوں میں تھا |
آریا اس دفعہ سب فتح کر گۓ |
ہم بھی کتنے عجیب اپنی راہوں میں تھے |
وار سب سیہہ گۓ اور بے سدھ رہے |
ایک پتھر کی طرح رہے عمر بھر |
اس نے آ کر جھنجھوڑا تو ہم رو پڑے |
اک کہانی پڑی مل گئی روڈ پر |
ہم نے جب سے پڑی کھوکھلے ہو گۓ |
اس کہانی کے ہر اک نۓ موڑ پر |
اپنے بستر میں لیٹے رہے سوچتے |
ہم سدھارت ہیں شاید نۓ دورکے |
یہ بھی ممکن ہے اک روز بدھ بن چلیں |
شاعر کا نام : ڈاکٹر کاشف سلطان
کتاب کا نام : محبت بانجھ رشتہ ہے
پیشکش : شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
حوس پرست ہوں اتنا کہ سانس لیتا ہوں
ازل سے بستی حیراں پہ ایک سایہ تھا