• صارفین کی تعداد :
  • 6265
  • 4/28/2009
  • تاريخ :

ازل سے بستی حیراں پہ ایک سایہ تھا

سایہ

ازل سے بستی حیراں پہ ایک سایہ تھا
جسے وجود کے پیکر میں اب تراش لیا

 

بھلا یہ آدم بے سمت اب کہاں بھٹکے

 جہاں جہاں تھا گمان اس نے سب تراش لیا

 

میں بے وجہ کی جدائی پہ  کیوں یقیں کرتا

ترے فراق کا میں نے سیب تراش لیا

 

مرے لبوں کو تمہاری کہاں ضرورت هے

مجھے سراب کی لہروں نے جب تراش لیا

 

میں رات بہت دیر تک اداس تھا

اٹھا جو تھک کے تو میں نے بھی رب تراش لیا

 

میں فن تراش تھا سوچا تجھے امر کر دوں

تجھے اٹھا کے تخیّل میں تب تراش لیا

 

شاعر کا نام : ڈاکٹر کاشف سلطان

کتاب کا نام : محبت بانجھ رشتہ ہے

پیشکش : شعبۂ تحریرو پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں:

لکھتا ہوں کہ شاید کوئی افکار بدل دے

رات بھر اکیلا تھا اور دن نکلتے ہی