• صارفین کی تعداد :
  • 4672
  • 11/23/2008
  • تاريخ :

جزیرہ قشم

جزیرہ قشم

یہ مشرق وسطی کا سب سے بڑا جزیرہ ہے ۔اس کا رقبہ بحرین سے دوگنا ہے اور یہ ایران کے شہر بندرعباس سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اس جزیرے کا رقبہ 1700 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے جس کے ساحل پتھریلے ہیں ۔ یہاں کی مقامی آبادی دیہاتوں اور چھوٹے چھوٹے قصبوں میں تقسیم ہے ۔ یہاں پر مختلف طرح کے جانور جن میں ہرن ،سانپ،بچھو اور مختلف اقسام کے پرندے شامل ہیں پاۓ جاتے ہیں ۔ شمال مغربی ساحل کی طرف ایک  ماھی خور پرندہ (pelican) بھی پایا جاتا ہے ۔

جزیرہ کے اندر رواں پانی کی بہت سی ندیاں  اور جنوب مشرق میں نمک کی  کانیں بھی پائی جاتی ہیں ۔ زراعت کے شعبہ میں مقامی  آبادی کے لیۓ بہترین مواقع میسر ہیں ۔ انقلاب  اسلامی  ایران کے  بعد 31 جنوری 1990ء کو پیش ہونے والے پہلے پانچ سالہ منصوبے میں اس جزیرے کو جزیرہ کیش کی  طرح ایک  آزاد تجارتی علاقہ قرار دے دیا گیا ۔ یوں اس جزیرہ کو مشرق وسطی میں ایک کلیدی اہمیت حاصل ہو گئی ہے ۔

 

یہاں پاۓ جانے والے قدرتی گیس کے ذخائر کی وجہ سے یہ جزیرہ ملکی اور غیرملکی سرمایہ کار کمپنیوں کی توجہ کا مرکز ہے ۔ اس جزیرہ میں حکومت کی طرف سے بہت تیزی سے بنیادی سہولیات فراہم کی  جا رہی ہیں اور وقت کے ساتھ ان کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے ۔ یہاں پر بین الاقوامی سکولز ،بین الاقوامی یونیورسٹی،ہوٹلز،مواصلات کا جدید نظام ،ہسپتال ،اچھی سڑکیں اور ہوائی اڈے جیسی سہولیات کو اوّلین ترجیح دی گئی ہے ۔

جزیرہ قشم

حکومت کی ان کاوشوں کے نتیجہ میں آخرکار یہ جزیرہ ایک بین الاقوامی تجارتی مرکز بن کر ابھر رہا ہے اور یورپ اور جاپان کے  راستے میں ایک بڑا آزاد تجارتی مرکز بنتا جا رہا ہے ۔ سیاحوں کی دلچسپی کے لیۓ یہاں سمندر میں کھیلے جانے والے کھیلوں کے انعقاد پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ۔ مارکوپولو  اور واسکوڈا گاما نے بھی اپنے سفرناموں میں اس جزیرہ کا ذکر کیا ہے ۔ پرتگالیوں نے اپنے دور حکومت میں جزیرہ کے مشرق میں ایک  قلعہ تعمیر کروایا جو اب بھی اپنی ٹوٹی پھوٹی حالت میں موجود ہے ۔ یہ جزیرہ مختلف ادوار میں ہالینڈ،ایسٹ انڈیا کمپنی ،فرانس،جرمنی،اور حکومت برطانیہ کے زیر قبضہ رہا اور پہلی جنگ عظیم  کے بعد دوبارہ ایران  کے  کنٹرول میں آ گیا ۔

 

جزیرے میں ایک قشم نامی شہر بھی ہے جو جزیرے کا تجارتی مرکز بھی سمجھا جاتا ہے ۔اس شہر میں ایک مہمان سرا بھی ہے جو یہاں آنے والے سیاحوں کی  رہائش  کے لیۓ ایک معقول جگہ ہے ۔ یہاں پر گھومتے پھرتے ہو‌ۓ پرتگالی دور حکومت کے بہت سے آثار قدیم قلعوں اور دوسرے تاریخی مقامات کی صورت میں دیکھنےکو ملتے ہیں ۔ زیادہ تر مقامی آبادی کا ذریعہ معاش ماھی گیری اور تجارت ہے اور بہت سے لوگ ملاح  بھی ہیں ۔  

 

                                                          شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان


متعلقہ تحریریں: 

 باغ ارم شیراز

 قلعہ کریم خان