• صارفین کی تعداد :
  • 2954
  • 9/27/2008
  • تاريخ :

پاکستان اب مزید امریکی دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دے

پاکستان کا جهنڈا

بدقسمتی سے پاکستان کے جسد قومی کو اس وقت متعدد سنگین امراض لاحق ہیں۔ ان میں سے کچھ امراض دیرینہ ہیں اور کچھ نسبتاً حال ہی میں اس کا مقدر بنے ہیں۔ جس طرح متعدد بیماریوں کی گرفت میں آئے ہوئے مریض کی حالت ہوتی ہے کہ کبھی کوئی ایک مرض نسبتاً زیادہ شدت اختیار کر جاتا ہے اور اس کے لواحقین کو اس مرض کے حوالے سے اسے سنبھالنے کی فکر پڑ جاتی ہے ،اسی طرح ایک دوسرے وقت پر کوئی دوسری بیماری شدت سے سر اٹھا لیتی ہے تو معالجین اور تیماردار اس نئے خطرے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ دوسرے امراض غائب ہو جاتے ہیں یا ان سے شفا حاصل ہو جاتی ہے بلکہ صرف ایسا ہوتا ہے کہ وقتی طور پر ڈاکٹروں اور تیمار داروں کی توجہ زیادہ شدت سے محسوس ہونے والے مرض کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔

 پاکستان کو جو داخلی عوارض لاحق ہیں ان کی بھی ایک لمبی فہرست ہے لیکن غالباً سیاسی عدم استحکام اور سیاسی قیادت کی ناپختہ کاری سب سے بڑا داخلی مرض ہے جو کئی امراض کی جڑ اور ان کا سبب ہے۔ اس مرض کا ایک اظہار وہ سیاسی تگڑم بازی ہے جو مختلف سیاسی جماعتوں اور دھڑوں کے درمیان اس وقت جاری ہے۔ دعوے تو تمام دھڑے یہی کر رہے ہیں کہ ان کا موقف اور ان کا رویہ اصولی اور جمہوری ہے لیکن بدقسمتی سے ہر دھڑا دوسرے کو بے اصول سیاست کرنے اور غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام دے رہا ہے۔

 

اس کی ایک واضح مثال پنجاب میں جاری سیاسی کشمکش ہے۔ اس کشمکش میں غیر معمولی اضافہ ق لیگ کے بے لگام ارکان اسمبلی کی وجہ سے ہوگیا ہے جو کبھی ایک طرف دکھائی دیتے ہیں اور کبھی دوسری طرف اور ان میں سے بعض ارکان تو ایسے ہیں کہ ان کی موجودہ اور عارضی وفاداریوں کا صحیح سراغ لگانا بھی آسان نہیں رہا۔ وہ کبھی باڑ کے اس طرف دکھائی دیتے ہیں کبھی دوسری طرف اور اسی جماعت کے (اگرا سے جماعت کہا جا سکتا ہے) ارکان کے بارے میں پائی جانے والی بے یقینی کی کیفیت نے صوبے کی سیاسی صورتحال کو انتہائی گنجلک بنا دیا ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کسی بھی دھڑے یا فارورڈ بلاک کے لوگوں سے بات کریں تو وہ آپ کو اپنے پاک اور پوتر صاف اور شفاف جمہوری اور اصولی ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔ اگر ہماری سیاسی جماعتیں واقعی اس قدر صاف ستھری اور جمہوری مزاج کی حامل ہیں توپھر اس امکانی اکھاڑ پچھاڑ کا ذمہ دار کون ہے جس کا خطرہ پنجاب میں ظاہر کیا جا رہا ہے۔ آخر کوئی تو ”ولن“ موجود ہے جو ہاتھ کی صفائی دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

 

ادھر داخلی سیاسی محاذ پر ایک سنگین مسئلہ بے یقینی اور اکھاڑ پچھاڑ کی کیفیت ہے۔ معیشت کی پیچیدگیاں اور ان کے ناموافق اثرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ عوام کی مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ مہنگائی کے ہاتھوں بے بس ہو چکے ہیں۔ ان کی افطاریاں اور ان کی سحریاں بعض مقامات پر اندھیرے میں ڈوبی رہتی ہیں لیکن کوئی ان کی چارہ جوئی کرنے والا نہیں ہے۔ایسے میں ضرورت تو اس بات کی تھی کہ 18فروری کے انتخابات میں مینڈیٹ حاصل کرنے والی پارٹیاں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ہر قسم کی بے اصولی اور غیر جمہوری حرکتیں ترک کر دیتیں اور کندھے سے کندھا ملا کر ملک کے عوام کو درپیشمسائل حل کرنے میں جُت جاتیں لیکن افسوس کہ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

 

ادھر اس وقت پاک امریکہ تعلقات ایک ایسے مرض کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں جس کا کوئی شافی علاج تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مزید بدقسمتی یہ ہے کہ اس سوال پر پاکستان کے باخبر حلقے کسی ایک لائحہ عمل پر یکسو اور متفق نہیں ہیں۔ 9/11کے بعد پاکستان نے جو پالیسی اپنائی تھی اسے اس موقعے پر بہت سے لوگوں نے ”مجبوری کی شادی“ سمجھ کر قبول کر لیا تھا لیکن جیسا کہ اس کالم میں کئی بار عرض کیا گیا ہے جنرل مشرف نے امریکیوں کے ساتھ مصافحہ ہی نہ کیا بلکہ معانقے تک بھی پہنچ کر نہ رکے بلکہ وہ کیفیت پیدا کر دی جیسے:

 

 

من تو شدم تو من شدی

من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گوئید بعد ازیں
من دیگرم تو دیگری

 

اور اسی رویئے کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے لئے امریکہ کے بارے میں کوئی دو ٹوک اور صائب پالیسی اختیارکرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور پاکستانی عوام ”پاک امریکہ تعلقات کے مرض“ کا کوئی شافی علاج سوچنے اور اختیار کرنے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں اوروہ انگریزی محاورے کے مطابق

Between a rock and a hard place

کی سی صورتحال سے دوچار ہیں لیکن آج (بروز جمعرات) پہلا موقع ہے کہ پاکستان کا دانشور طبقہ اور عوام الناس بڑی حد تک یکسو ہو کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اب ہمارے لئے امریکہ کو کوئی مزید Latitudeدینا ممکن نہیں رہا۔ اکثر لوگ اب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ہمیں اب امریکہ سے کسی لمبی چوڑی خیر کی توقع نہیں کرنی چاہئے اس لئے وہ وقت آگیا ہے جو سابق صدر مشرف کے بھی مطابق پاکستان کو اپنے دانت دکھانے پر مجبور کر رہا ہے۔

امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مولن نے جنرل کیانی اور وزیراعظم گیلانی کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کی موجودہ سوچ کا کچھ اندازہ کر لیا ہوگا اور انہیں یہ اندازہ بھی ہوگیا ہو گا کہ پاکستانیوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لئے انہوں نے وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیئے کی اس ترتیب کو قبول کر لیا جو پاکستانی کیمپ کی طرف سے پیش کی گئی تھی اور انہیں بار بار یقین دلانا پڑا کہ امریکہ آئندہ پاکستان کو شکایت کا موقع نہیں دے گا لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں ایڈمرل مولن کی یقین دہانیوں کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ امریکہ نے جنوبی وزیرستان کے علاقے میں ایک اور میزائل حملہ کر دیا جس سے امریکی قول و قرار اور وعدوں کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ ہو کررہ گئی ہے اس حملے نے پاکستان کے تمام فہمیدہ لوگوں کو یہ رائے قائم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اب ہمیں امریکی ناراضگی کی پروا کئے بغیر بعض جوابی اقدامات کرنے پڑیں گے۔ جناب آصف علی زرداری نے برطانیہ سے اپنی واپسی کے بعد یہ یقین دلایا ہے کہ وزیراعظم گارڈن براؤن امریکہ کوپاکستانی علاقوں پر حملے سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے لیکن اقوام متحدہ میں ”جنگ“ کے تجربہ کار نمائندے کا خیال ہے کہ مجوزہ بش زرداری ملاقات میں صدر بش پاکستانی صدر پر اپنے مطالبات منوانے کے لئے مزید دباؤ ڈالیں گے مگر توقع یہی کی جاتی ہے کہ جناب زرداری اہل پاکستان کا موجودہ موڈ دیکھتے ہوئے صدر بش کو اپنے نقظہ نظر کا قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ امریکہ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حملوں میں جو تیزی پیدا کی ہے بعض لوگ اس کا سبب یہ سمجھتے ہیں کہ صدر بش اپنی مدت عہدہ ختم ہونے سے پہلے افغانستان کی صورتحال کو بہتر بنانے کا جو نقشہ اپنے ذہن میں رکھتے ہیں اس میں ان کے لئے رنگ بھرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کی دانست میں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے شدت پسندوں کے ٹھکانے اور محفوظ پناہ گاہیں ختم نہیں کر دی جاتیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستانی فوج اور اس کی قیادت خود یہ مشن مکمل نہیں کر سکتے جس کی ان کی نظر میں متعدد وجوہات ہیں جن میں ہمارے نقطہ نظر سے کوئی خاص وزن نہیں ہے

 

لیکن چونکہ صدر بش ایک خاص انتہا پسند حلقے میں گھرے ہوئے ہیں اور انہیں یہ مشورہ بھی بڑے زور سے دیا جا رہا ہے کہ افغانستان کی صورتحال کو امریکی نقطہ نظر سے مقابلتاً بہتر بنانے کے لئے پاکستانی علاقے پر خود امریکہ کا آپریشن کرنا ناگزیر ہے حالیہ ہفتوں میں امریکی حملوں میں جو تیزی آئی ہے وہ اسی سوچ کا اظہار ہے۔ اب یہ پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت کی فراست ،دور اندیشی اور بالغ نظری کا امتحان ہے کہ وہ امریکہ کو اپنی اس سوچ سے باز رکھنے کے لئے کیا کر سکتی ہے۔ جیسا کہ بہت سے مبصرین نے کہا ہے اب ہمارے پاس پسپائی کی اور زیادہ گنجائش نہیں ہے لیکن امریکی یلغار کو روکنا بھی اب ناگزیر ہو گیا ہے گویا بظاہر پاکستان ”پائے رفتن نہ جائے ماندن“ کی صورت حال سے دوچار ہوگیا ہے۔ پچھلے ایک دو دنوں میں پاکستان کے متعدد تجربہ کار اور بالغ نظر اور محتاط مبصرین نے بھی اب یہ کہنا ناگزیر سمجھا ہے کہ ہمیں امریکہ کے خلاف کچھ نہ کچھ علامتی اقدامات فوری طور پر کرنا پڑیں گے۔ خوش قسمتی سے امریکہ کو اپنے بعض مغربی حلیفوں سے بھی کچھ زیادہ تائید اور حمایت نہیں مل رہی۔ یقینا چین اور روس بھی نہیں چاہیں گے کہ امریکہ کو پاکستانی سرحدی علاقوں میں حملے کرنے کی کھلی چھوٹ ملی رہے ۔اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی حکمران قیادت امریکہ کو یہ احساس دلانے کے لئے سفارتکاری اور بعض جوابی اقدامات کا اہتمام کرے اور توازن کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے امریکہ کو اپنے تھوڑے بہت دانت ضرور دکھائے۔ اگر ہم اب بھی امریکی دباؤ کو قبول کرتے گئے تو پھر اس کے مطالبے کی ایسی شکلیں سامنے آ سکیں گی جو ایک خود مختار ریاست کے لئے تسلیم کرنا کسی حال میں بھی ممکن نہ ہوگا لہٰذا بہتر یہ ہوگا کہ امریکہ کو اپنی ناراضگی سے کسی اشتباہ کے بغیر آگاہ کر دیا جائے اور صدر زرداری بش سے اپنی ملاقات میں وہی موقف اختیار کریں جس موقف کو اس وقت ملک کے وسیع حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ کوئی بھی امریکہ سے تصادم نہیں چاہتا لیکن مصالحت اور مفاہمت اور لچک کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور بظاہر امریکہ اس حد کو نظر انداز کرتا دکھائی دیتا ہے۔ امید ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت ملک کو اس مشکل صورتحال سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی،اقبال نے درست کہا ہے:

 

اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

 

پسندیدہ فیصلہ مگر

بڑی خوش آئند بات ہے کہ صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی سرکاری اخراجات میں کمی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور زرداری صاحب امریکہ بھی ایک چھوٹا وفد لے کر جا رہے ہیں لیکن یہ بات (اگر درست ہے) تو ناقابل فہم ہے کہ وہ نیویارک میں روز ویلٹ ہوٹل کی بجائے شہر کے سب سے مہنگے ہوٹل میں ٹھہر رہے ہیں جہاں امریکی صدر ٹھہرتے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وہ روز ویلٹ میں ٹھہرنے کو ترجیح دیتے۔

                                                             تحریر: ارشاد احمد حقانی

 


                                 

متعلقہ تحریریں: 

 مالکی اور مقتدٰی الصدر کے درمیان صلح امریکی اہداف کی ناکامی

 پاکستان میں نئی امریکی سفارت کاری ۔ ایک خطرناک کھیل

 ڈنمارک سے اسلامی ممالک اپنے تعلقات منقطع کر لیں : عرب پارلیمنٹ